وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وفاقی سیکرٹری قانون منجھے ہوئے قانون دان ہیں۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر جو من وعن عمل درآمد نہیں کرے گا وہ توہین عدالت کا مرتکب قرار پائے گا لہٰذا ہر صورت میں عمل کرنا ہی پڑے گا۔ یہ بات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی پتہ ہے۔ پہلے پہل وہ صدر پاکستان عارف علوی کے خطوط کا جواب دینے سے گریز کرتا رہا مگر اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تیر کی طرح سیدھا ہو گیا ہے۔ اب ہر صورت میں اپریل کے وسط سے پہلے تک دونوں صوبوں کے الیکشن کرانے ہی پڑیں گے۔
وطن عزیز کی سیاست میں اس وقت کپتان مقبولیت کی معراج پر ہے۔ ساری سیاست اس کے ہی اردگرد گھوم رہی ہے۔ پچھلے ہفتے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور راجن پور کے الیکشن نے کپتان کی مقبولیت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا الیکشن پڑھے لکھے لوگوں کا الیکشن تھا۔ قانون دانوں سے ووٹ لینا تھا۔ وہاں کپتان کے امیدوار اشتیاق خان نے وفاقی وزیر قانون کے امیدوار کو 3 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا۔ پھر راجن پور جو پنجاب کا ایک بہت ہی پسماندہ علاقہ ہے وہاں عام عوام جہاں تعلیم کی اوسط بھی کم وہاں بھی تحریک انصاف کے محسن لغاری نے نواز لیگ کے امیدوار کو 30 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا ہے۔
یہ ہے اس وقت پنجاب کا سیاسی مزاج۔ چاہے پڑھا لکھا قانون دانوں کا طقبہ ہو یا ایک پسماندہ علاقے کی عام عوام، ہر جگہ کپتان کا جادو چل رہا ہے۔ یہی خوف تھا جس کی وجہ سے مکس اچار حکمران اتحاد اور ان کے سہولت کار الیکشن سے فرار ہو رہے تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک کسی سیاست دان کو اقتدار سے علیحدہ ہو کر اس قدر مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو عمران خان کو مل گئی ہے۔ عمران خان مقبولیت سے قبولیت کی طرف اب چل رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی ہئیت مقتدرہ کپتان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے ملکی ہئیت مقتدرہ بھی کپتان کی قبولیت پر مہر ثبت نہیں کر رہی۔
دوسری طرف وطن عزیز کی سیاست میں کپتان سب سے آگے ہے۔ اس کے مخالفین بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ نوشتہ دیوار لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن کپتان جیت جائے گا اور اس کے بعد قومی اسمبلی کے الیکشن رسمی کارروائی رہ جائیں گے۔ ہماری ہئیت مقتدرہ کو چونکہ اغیار کی امداد پر پلنے کی عادت پڑ گئی ہے اس لئے وہ ہر فیصلے کے لئے ان کی طرف دیکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہوا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی مقبولیت پر قبولیت کی مہر ثبت نہیں کی گئی۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت پر قبولیت کی مہر ثبت نہیں کی گئی۔ اگر اب ہئیت مقتدرہ نے کپتان کی مقبولیت پر قبولیت کی مہر ثبت کرنے سے گریز کیا تو وطن عزیز ایک اور سانحے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج ہئیت مقتدرہ کو ہوش اور عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ان کے پاس آخری موقع ہے اپنی ساری غلطیوں کا ازالہ کرنے کا۔ اگر اب بھی درست فیصلہ نہ کیا تو انجام نوشتہ دیوار ہے۔