کم عمری میں شادی؛ قانون پر عمل درآمد کا طریقہ کار موجود نہ ہونے کا انکشاف

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ کے مطابق 1929 سے بنائے گئے قانون پر مؤثر انداز میں عمل درآمد ہو رہا ہے اور نا ہی اس قانون کے تحت کوئی کارروائی کی گئی ہے، اس پر مکمل میکنزم تیار کیا جائے گا اور سیکرٹری یونین کونسل والدین کے خلاف مقدمہ دائر کرے گا۔

01:02 PM, 2 Mar, 2024

منیر باجوہ

کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے 95 برس قبل بنائے گئے قانون پر مؤثر عمل درآمد کا طریقہ کار موجود نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب اور ڈی جی لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کو پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سے میٹنگ کر کے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں 1929 اور 2015 میں بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کیلئے ایس او پیز تیار کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس انوار الحق پنوں کے روبرو رمضانہ بی بی کے کیس میں پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے رپورٹ پیش کی جبکہ ڈی جی لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ نے کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کیلئے مجوزہ ایس او پیز پیش کیے۔ قانون پر مؤثر عمل درآمد کیلئے تجویز کیے گئے ایس او پیز میں کہا گیا کہ پنجاب کی ہر یونین کونسل سے نکاح کا ماہانہ ریکارڈ اکٹھا کیا جائے گا، ایڈمنسٹریٹر یا اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ تحصیل سطح پر چیک کرے گا اور اگر کوئی کم عمری کی شادی کا نکاح نامہ رجسٹرڈ ہوا پایا گیا تو چائلڈ ریسٹرینٹ میرج ایکٹ 1929 کے تحت نا صرف کارروائی کی جائے بلکہ نکاح رجسٹرار کا لائسنس بھی فوری منسوخ کیا جائے۔

کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کے لئے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ پولیس بھی کم عمری کی شادی کی شکایت موصول ہونے پر فوری کارروائی کرے جبکہ محکمہ پولیس اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو آگاہی مہم بھی چلائیں۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مقدمات کے چالان بروقت عدالتوں میں پیش کرنے کیلئے سہولت سنٹرز بنائے جا رہے ہیں اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب آفس میں ٹرائل سے قبل اور ٹرائل کے دوران پراسیکیوٹرز کی ٹیمیں بھی علیحدہ علیحدہ تشکیل دی گئی ہیں۔ ٹرائل سے قبل پراسیکیوٹرز کی ٹیم تفتیشی افسروں کی ہمہ وقت معاونت کرے گی۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے 'نیا دور' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1929 سے بنائے گئے قانون پر مؤثر انداز میں عمل درآمد نہیں ہو رہا اور نا ہی اس قانون کے تحت کوئی کارروائی کی گئی، اب اس پر مکمل میکنزم تیار کیا جائے گا اور جو والدین بچیوں کی کم عمری میں شادی کرتے ہیں ان کے خلاف بھی سیکرٹری یونین کونسل استغاثہ متعلقہ عدالت میں دائر کرے گا۔ نکاح رجسٹرار تو یہ دیکھتے ہی نہیں کہ لڑکی کی عمر کیا ہے اور کاغذات پر اس کی عمر 18 برس لکھ دیتے ہیں جبکہ قانون کے مطابق 16 برس سے کم عمر کی لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ عدالت ڈی جی لوکل گورنمنٹ کے مجوزہ ایس او پیز سے مطمئن نہیں ہوئی، اسی وجہ سے دوبارہ میٹنگ کر کے بہتر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

خواتین کے حقوق کیلئے متحرک ماہر قانون آسیہ اسماعیل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کا رجحان اس لیے ختم نہیں ہو رہا کیونکہ معاشرے کو اس ضمن میں آگاہی نہیں ہے۔ غربت، بڑھتی ہوئی آبادی، اور دیگر ایسے مسائل کے زیر اثر لوگ چاہتے ہیں بچیوں کی شادی کر کے جان چھڑوا لی جائے اور انہیں جو اچھا رشتہ ملتا ہے وہ شادی کر دیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ بچی کی عمر کا کتنا فرق ہے۔ ان کے مطابق اس قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے چیک لگایا جائے اور نکاح کے وقت ہی تمام ریکارڈ نادرا میں رجسٹرڈ بھی کیا جائے اور اسی وقت یہ بھی چیک کیا جائے کہ کیا جس لڑکی یا لڑکے کا نکاح ہو رہا ہے ان کی عمریں قانون میں بتائی گئی عمر سے کم تو نہیں ہیں۔

2023 کے آغاز میں پنجاب میں بچیوں کی کم عمری کی جبری شادیوں اور اغوا سے متعلق جرائم کے 10 ہزار 603 مقدمات زیر التوا تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس کے اختتام تک 2 ہزار 19 مقدمات نمٹائے گئے اور صرف 39 ملزموں کو سزائیں سنائی گئیں جبکہ 734 کیسز کے ملزموں کی بریت کی درخواستیں منظور ہوئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 295 ملزم ٹرائل مکمل ہونے کے بعد بری ہوئے۔ 35 کیسز کو راضی نامے کی بنیاد پر نمٹایا گیا اور 685 کیسز میں ملزموں کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر کے کیسز کو داخل دفتر کیا گیا۔

جسٹس انوار الحق پنوں کے روبرو رمضانہ بی بی نے اپنی بھتیجی کی حوالگی کی درخواست دائر کی تھی۔ پسند کی شادی کرنے والی حریم فاطمہ کو عدالتی حکم پر دارالامان ملتان سے بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے مغویہ کو بادی النظر میں عاقل قرار دیتے ہوئے اس کی رضامندی کے مطابق جس میں حریم فاطمہ درخواست گزار خالہ کے ساتھ جانا چاہتی تھی، اسے خالہ کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔

آسیہ اسماعیل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں پر جب والدین کا پریشر آتا ہے اور مقدمات درج ہونے کے بعد ایسی کم عمری کی جبری شادیوں کا انکشاف ہوتا ہے تو کیس عدالت میں پہنچنے کے بعد ہی لڑکی عدالت میں دارالامان یا والدین یا پھر جس سے پسند کی شادی کی ہوتی ہے اس کے ساتھ جانے کا بیان دے دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے کیسز میں کم عمری، جبری شادی جیسے جرائم کا انکشاف ہوتا ہے۔

جسٹس انوار الحق پنوں نے 31 مئی 2023 کو بھی اس طرح کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا مگر اس فیصلے کے بعد 9 ماہ گزرنے کے باوجود کوئی ایس او پیز تیار نہیں کیے گئے تھے۔ عدالت کے طلب کرنے پر ڈی جی لوکل گورنمنٹ نے کم عمری کی شادی کے قانون پر مؤثر عمل درآمد کے لئے ایس او پیز تجویز کیے ہیں جس پر عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو آئی جی پنجاب، ڈی جی لوکل گورنمنٹ سے میٹنگ کر کے مسلم فیملی لاز آرڈیننس اور فوجداری قانون کی روشنی میں بھی رپورٹ 5 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

مزیدخبریں