عالمی طاقتوں نے جنگیں مسلط کرتے ہوئے دنیا کا امن تباہ و برباد کیا اور انسانی خون سے منڈیاں سجائیں۔ ہر عالمی طاقت کا یہی چلن نظر آتا ہے کہ طاقت کے منہ زور گھوڑے پر سوار کمزور اور مخالفین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ موجودہ عہد میں امریکا کے مقابلے میں ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین ہے جس نے اپنی طاقت کا اظہار بریکس (BRICS)، سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی ترقیاتی منصوبوں سے کیا ہے۔
بریکس پانچ ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ کی ترقیاتی تنظیم ہے۔ بریکس کا قیام جون 2006 میں عمل آیا جبکہ ساؤتھ افریقہ نے 24 دسمبر 2010 میں شمولیت اختیار کی۔ بریکس نے ممبر ممالک کی ترقی کیلئے 2050 کا ہدف مقررکر رکھا ہے۔ سی پیک پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کی بنیاد 22 مئی 2013 کو رکھی گئی تھی۔ خالص ریجنل منصوبہ ہے۔ پاک چین راہداری منصوبے کا بنیادی مقصد تجارتی سرگرمیوں کے لئے ایک مربوط انفراسٹرکچر کی تعمیر ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ دنیا کا جدید ترین اور بڑا منصوبہ ہے۔ جس میں ابتدائی طور پر 60 ممالک کو شامل کیا گیا۔ جن میں چین مختلف سیکٹر میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اگر ون بیلٹ ون روڈ میں شامل ممالک کی فہرست دیکھیں تو زیادہ تعداد غریب ممالک کی ہے۔ آپ تصور کریں کہ 2049 تک چین کی سرمایہ کاری سے مذکورہ ممالک کے حالات کس قدر بہتر ہو سکتے ہیں۔ چین کے ان منصوبوں سے چین کو بےتحاشہ فائدہ ہوگا۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ زیر بحث امر یہ ہے کہ چین نے عالمی طاقت کے خبط میں کمزور ممالک کی منڈیوں پر فوجی قوت سے قبضہ کرنے کی بجائے معاشی ترقی کے پھیلاؤ کو ترجیح دی ہے۔ جس سے یقینی طور چین کی ترقی کے ثمرات غریب ممالک کو بھی حاصل ہو سکیں۔
اگر صرف پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کا پاکستان کی معیشت کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو منصوبے کی تکیمل اور تجارتی سرگرمیوں کے شروع ہونے پر ملکی معیشت تیز رفتارترقی کرے گی۔ بجلی و گیس کے بحرانوں سے نجات ملے گی اورغربت، بے روزگار، مہنگائی اور بدامنی کا بتدریج خاتمہ ممکن ہوگا اور پاکستان غربت کی دلدل سے نکل آئے گا۔ یہ محض خواب نہیں ہے بلکہ چین کے منصوبوں کی پیشگی حقیقت ہے۔ ایتھوپیا جیسے ممالک بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہیں۔
یہاں چین کی فراخدلی یا غریب ممالک سے ہمدری کی بات کے بجائے یہ امر واضح کرنے کی کوشش ہے کہ چین نے مروجہ عالمی طاقتوں جارحیت پسندانہ طریقے کی بجائے شراکت کی بنیاد رکھی ہے۔ جو دنیا کی تاریخ میں ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔ 2050 کے بعد کی دنیا امریکی سامراج کے خون آلود پنجوں سے آزاد ہو کر نئی معاشی آزادیوں کے ساتھ انسانی زندگی کی تمام تر سہولیات کے ساتھ زمین پر جلوہ افروز ہوگی۔ جس میں ایٹمی اسلحہ سمیت آگ اور بارود کے ڈھیر جمع کرنا وحشت اور درندگی تصور کیا جائے گا۔ انسانوں کو امان ہی امان حاصل ہوگی۔ چین کے 2050 کے بعد کی دنیا کا تصور ایک حقیقی گلوبل ولیج کی تخلیق ہے۔