مڈل کلاس کی بھی دو اقسام وجود رکھتی ہیں:
لوئر مڈل اور اپر مڈل کلاس۔
مہینے کے شروع میں ہم اپر مڈل کلاس بن جاتے ہیں اور مہینے کے آخر میں لوئر مڈل کلاس۔
ہم لقمے گن کر تو نہیں کھاتے لیکن آٹا سستا لینا چاہتے ہیں۔
یوٹیلٹی سٹور اور حکومت کی جانب سے اتوار بازار اور رمضان بازار مڈل کلاس لوگوں کے لئے ایک ریلیف ہے۔ کچھ دن سے سوشل میڈیا پر رمضان بازاروں کی ویڈیوز دیکھ رہے ہیں کہ کیسے عام آدمی ایک کلو چینی اور دس کلو آٹے کے لئے تڑپ رہا ہے۔
ایک سفید پوشی کا بھرم تھا ہمارا جو اب شناختی کارڈ دکھا کر انگھوٹے پر نشان لگوا کر ایک کلو چینی دینے سے ٹوٹ رہا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے ہمارے چہرے سے ہماری سفید پوشی کا نقاب کھینچ لیا ہے۔
میں جمعہ کو رمضان بازار صرف یہ دیکھنے گیا کہ ویڈیوز اور تصاویر میں کتنی سچائی ہے۔ کورونا کی وبا کے باوجود لوگ لائن میں لگے ہوئے تھے۔ میں وہاں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا کیوں کہ وہاں ایک تماشہ لگا ہوا تھا اور تماشے میں عام آدمی کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔
خواتین لائن میں لگی ہوئی تھیں، کئی مقامات پر کرسیاں بھی لگائی ہوئی ہیں لیکن پھر بھی ایک ہزار کی شاپنگ کرنے پر چینی دی جا رہی تھی۔ ایک کلو چینی انگوٹھے پر نشان لگا کر چینی کے پیکٹ تھمائے جا رہے تھے۔ مفلسی کا مذاق بنایا جا رہا تھا۔
مجھے وہ دن بھی یاد آ گیا جب رمضان بازار میں چینی کے پیکٹ اور آٹے کے تھیلے وافر مقدار میں موجود ہوتے تھے۔ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ روزانہ کسی شہر میں رمضان بازار کا دورہ ہوتا۔ رمضان بازار کی چیزوں کی کوالٹی بہتر ہوتی۔ ایک دن میں تین، تین بازاروں کا دورہ بھی کیا۔ بازار میں خواتین، مرد ان کو دیکھتے اور ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ ایک امید، ایک سکون ہوتا کہ ایک شہباز شریف تو ہے جو ہمارا خیال رکھتا ہے۔ ہمیں روزے کی حالت میں چینی کے ایک پیکٹ کے لئے خوار نہیں ہونے دے گا۔
شہباز شریف کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایک چمک آ جاتی تھی۔ اب وہی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہیں۔ موجودہ حکومت کو بددعائیں دے رہی ہیں۔
اور اپنے نجات دہندہ کا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔
نجات دہندہ کب آئے گا اور ان کی زندگی میں وہی اطمینان لے آئے گا جو تین سال پہلے تھیں؟ وہی سب واپس آئے گا۔
امید بھری آنکھیں انتظار میں ہیں۔ کوئی ہے جو ان کی سفید پوشی کا بھرم لوٹا سکتا ہے۔۔!