آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ریاست کی کوششوں سے غیر ریاستی عناصر کو شہہ ملی ہے کہ وہ ایسے لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کریں جو ان سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ اِس کے لیے اکثر پرتشدد طریقے استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک فیکٹری مینیجر کا توہینِ مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ قتل اور پی پی پی کے قانون سازوں کی طرف سے مبینہ طور پر انسانی حقوق کے دفاع کار ناظم جوکھیو کا وحشیانہ قتل، دونوں واقعات اِس کا واضح ثبوت ہیں۔
رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ پچھلی وفاقی حکومت کے جاری کردہ صدارتی آرڈیننسز کی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں سیاسی اتفاقِ رائے نہ ہونے کے برابر تھا۔ حکومت نے 2021 کے دوران ریکارڈ 32 صدارتی آرڈیننسز جاری کیے۔ جبری گمشدگی کو باقاعدہ ایک الگ جرم قرار دینے کے لیے جس قانون کا طویل عرصے تک انتظار کیا جا رہا تھا وہ دسمبر 2021 کے اختتام تک منظور نہیں ہو سکا تھا۔ 2021 میں جبری گمشدگیوں کے انکوائری کمیشن کو جبری گمشدگیوں کے سب سے زيادہ واقعات بلوچستان سے رپورٹ ہوئے۔ اِن کی تعداد 1,108 تھی۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی شدید تشویش کا باعث بنی رہی، خاص طور پر عورتوں اور مذہبی اقلیتوں پر اپنے منفی اثرات کی وجہ چھوڑ گئے ۔ یہ حقیقت گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ بل 2020 اور جبری تبدیلی کی ممانعت بل 2021 پر اسلامی نظریاتی کونسل کے اعتراضات سے واضح ہو جانی چاہیے۔ اِس کے باوجود، ملک میں جنسی زيادتی کے 5,279 اورغیرت کے نام پر 478 قتل اور اسلام آباد میں نورمقدم کے بہیمانہ قتل جیسی صورتحال میں 2021 میں خواتین کے حقوق کے کارکنان نے بجا طور پر کہا کہ پاکستان میں صنف کی بنیاد پرعورتوں کو کچلنے کی منظّم مہم جاری ہے اور اِس کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
2021 میں کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا تو اس کے نتیجے میں بےروزگار افراد کی تعداد میں بےتحاشا اضافہ ہوا۔ مزدوروں اور کسانوں کے حالات خاص طور پر خراب ہوئے۔ اِس کی دو خاص وجوہ ہیں: ایک تو یہ کہ پنجاب میں کم از کم تنخواہ میں محض2,000 روپے کا اضافہ ہوا اور دوسری یہ کہ حکومتِ سندھ نے کم از کم ماہانہ تنخواہ 25,000 روپے کرنے کا فیصلہ کیا تو عدالتِ عظمیٰ نے اس فیصلے پر عملدرآمد روکنے کا حکم صادر کر دیا۔
گذشتہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ قومی یکساں نصاب سے تعلیمی تفاوت میں کمی آئے گی مگر یہ اپنے اندر جمہوری رویوں کی کمی اور ناقص طریقہ تدریس کی بدولت ماہرینِ تعلیم اور انسانی حقوق کے دفاع کاروں کی شدید تنقید کا نشانہ بنا۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور قومی کمیشن برائے حقوقِ نسواں، دونوں کو فعال کیا گیا اور نئے چیئرپرسنز کا تقرر کیا گیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کی چیئرپرسن کی تقرری سیاسی تنازعہ کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ عدالتوں کی جانب سے موت کی سزا کے فیصلوں میں نمایاں کمی ہوئی۔ 2020 میں کم از کم 177 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ 2021 میں یہ تعداد 125 تھی۔ کسی بھی قیدی کو پھانسی لگنے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی جبکہ عدالتِ عظمیٰ نے اپنے ایک تاریخ ساز فیصلے میں ذہنی طور پر بیمار تین قیدیوں کی سزائے موت ختم کی۔
موجودہ حکومت کو اپنے دور میں انسانی حقوق کے مسائل کو ہلکا لینے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ اسے آزادیِ اظہار اور تمام کمزور اور نظرانداز شدہ گروہوں کے حقوق کے تحفظ کا عہد کرنا چاہیے۔ اِس کے ساتھ ساتھ، اِسے ٹی ایل پی جیسے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، جنہوں نے 2021 میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے تشدد کا سہارا لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی تھی؛ اور نہ حکومت کو شہریوں کی آوازوں کو نظر انداز کرنا چاہیے، خواہ وہ گوادر کے لوگ ہوں جو خطے کی معاشی ترقی میں اپنے حصے کا مطالبے کرتے ہیں یا خیبر پختونخواہ کے قبائلی ہوں جو بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے تناظر میں قانون و امن عامہ کی پاسداری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایچ آر سی پی واحد تنظیم ہے جو 30 برسوں سے ملک کی انسانی حقوق کی صورت حال کو مستقل طور پر دستاویزی شکل دے رہی ہے، اور انسانی حقوق اور جمہوریت کی اصل تصویر سامنے لاتی ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ، اِس بار، ریاست توجہ دے گی۔