سابق وزیراعظم عمران خان، جسٹس (ر) جاوید اقبال، سابق ڈی جی نیب اسلام آباد عرفان منگی اور وہ دو نیب افسر جو میرے کمرے میں انکوائری کے لیے آتے تھے، ان سب کو انصاف کے کٹہرے میں لاؤں گا۔ یہ جانتے تھے کہ میں سچ بول رہا ہوں اور وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ کہنا ہے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا۔
قومی احتساب بیورو نے 30 اپریل کو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے خلاف 6 سال سے چلنے والا ایل این جی ریفرنس واپس لے لیا جس پر اسلام آباد کی احتساب عدالت نے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل سمیت تمام ملزمان کو ریفرنس سے بری کر دیا۔ ایل این جی ریفرنس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، ان کے بیٹے عبد اللہ خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو نامزد کیا گیا تھا جنہیں نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے ریفرنس واپس لینے کے بیان کی روشنی میں بری کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
نیب کی جانب سے ایل این جی کی خریداری میں سابق وزیر اعظم پر قومی خزانے کو 21 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ایل این جی ریفرنس میں پیٹرولیم کمپنیوں کے ملازمین پر بھی الزامات لگائے گئے تھے۔
اس پیش رفت کے بعد مفتاح اسماعیل نے ڈان نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جو زیادتیاں، جو ظلم کرنا تھا وہ تو کر چکے ہیں لیکن میں نیب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ کم از کم انہوں نے ایمانداری سے اس معاملے کی تحقیقات کیں اور کیس واپس لیا۔ جب میں نیب کی جیل میں تھا تب میں نے نیب سے کہا تھا کہ اگر تم دنیا میں اس سے سستا ٹرمینل دکھا دو تو میں خود اعتراف جرم کر لوں گا اور دس سال جیل بھی کاٹ لوں گا۔ میں شاہد خاقان عباسی کی بھی گارنٹی لیتا ہوں کہ وہ بھی کر لیں گے۔ ہمارے خلاف اتنی گہری سازش تھی کہ ہم نے اختیارات کا غلط استعمال کیا لیکن اس منصوبے میں جو کنسلٹنٹ تھے وہ یو ایس ایڈ کے تھے، پاکستانی شہری نہیں تھے اور وہ بھی تب تعینات کیے گئے جب میں اور شاہد بھائی کسی عہدے پر نہیں تھے۔ ہم نے کہاں اختیارات کا استعمال کیا۔ ہم نے کہا کہ چلو اگر ہم نے مہنگا ٹرمینل لگایا یا چوری کی تو پھر دنیا میں اس سے سستا ٹرمینل دکھا دو۔ وہ دنیا میں اس سے سستا کوئی ایک بھی ٹرمینل نہیں ڈھونڈھ سکے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
انہوں نے مزید بتایا کہ جس دن میں جیل میں گیا اس کے دو دن بعد میرا دوست اس وقت کے نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر سے ملا۔ انہوں نے میرے دوست سے کہا کہ مفتاح کو بولو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ نواز شریف یا شاہد خاقان عباسی کے خلاف کوئی بات کہہ دے۔ میری بیٹی بہت روتی تھی جب میں جیل میں تھا تو میں نے اس کو بھی بولا کہ میں نواز شریف یا شاہد خاقان عباسی کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ لیکن اب چونکہ وقت گزر گیا ہے۔ مجھے بیوی کے سامنے عدالت سے گرفتار کیا گیا اور 50 دن قید تنہائی میں رکھا گا۔ موبائل نہیں تھا تو 14 کے قریب کتابیں پڑھیں۔ نیویارک ٹائمز بھی آتا تھا۔ دن میں 70 مچھر مارنے کا ریکارڈ تھا۔ وقت بھی تو گزارنا تھا۔ واش روم تھوڑا دور تھا اور کامن تھا۔ اس میں شاور نہیں تھا تو اوپر سے ایک نل لگا دیا۔ جیل لاک تھی۔ جب واش روم جانا ہوتا تھا تو دروازہ کھٹکھٹاتے تھے تو اگر باہر کوئی سپاہی بیٹھا ہوتا تو دروازہ کھولتا اور واش روم لے جاتا۔ دو ہفتے بعد کیس کی سماعت کے دوران 50 منٹ کے لیے واک کی اجازت دی گئی۔ اتفاق سے یہ وہی جج جسٹس محمد بشیر تھے جنہوں نے نواز شریف کو بھی سزا دی، عمران خان کو بھی سزا دی۔ مفتاح اسماعیل نے ہنستے ہوئے کہا کہ ان کا ریکارڈ بڑا 'اچھا' ہے۔
مفتاح اسماعیل کے مطابق پہلے یہ انکوائری سندھ میں ہوئی جس میں ہمیں کلیئر کر دیا گیا۔ میں، ایس ایس جی سی پی ایس او، ایل این جی ٹرمینل، اینگرو سب سندھ میں تھے۔ آپ نے انکوئری کی، سب کلیئر ہو گیا تو آپ نے شیخ رشید کے کہنے پر اسلام آباد میں دوسری انکوائری کھول دی۔ میرا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا لیکن میں نہیں چھوڑوں گا۔ میں جسٹس (ر) جاوید اقبال جو کہ ممکنہ طور پر پاکستانی تاریخ کا بدترین سپریم کورٹ جج تھا، اس کو کورٹ لے کر جاؤں گا۔ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو کورٹ لے کر جاؤں گا۔ سابق ڈی جی نیب اسلام آباد عرفان منگی اور وہ دو نیب افسر اور جو کنسلٹنٹ میرے کمرے میں انکوائری کے لیے آتے تھے، مجھ سے سوال پوچھتے تھے اور ان کو پتہ تھا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں اور میں سچ بول رہا ہوں، ان سب کو کورٹ لے کر جاؤں گا۔
اس موقع پر مفتاح اسماعیل تلخ ماضی کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ آج بہت خوشی کا دن ہونا چاہیے تھا۔ بہت سے لوگوں نے مبارک باد کے پیغام بھیجے لیکن یہ میرے لیے ایک تلخ دن تھا کیونکہ مجھے بہت سی یادیں آ رہی تھیں۔ مثلاً جب میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا، میری بیوی کی الماریوں کو چیک کیا گیا۔ میری بیوی، بیٹی اور بہنوں نے بہت کچھ برداشت کیا۔ میں اس بارے میں بات کر کے کبھی نہیں رویا۔ جیل میں بھی اللہ نے صبر سے رکھا لیکن یقینی طور پر کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو اچھی نہیں ہوتیں لیکن آپ کو یاد رہتی ہیں۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جب شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تو وہ ملک سے باہر تھے۔ جس دن مجھے 'نو فلائی لسٹ' میں ڈالا گیا تو رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب پتہ چلا کہ مجھے نو فلائی لسٹ میں ڈالا گیا ہے۔ صبح مجھے 8 بجے کراچی سے لاہور جانا تھا اور گیارہ بارہ بجے لاہور سے لندن جانا تھا۔ 11 بجے فون آیا کہ آپ نہیں جا سکتے۔ ساڑھے گیارہ بجے کسی صاحب کا مجھے فون آیا کہ مفتاح بھائی اگر آپ کو نکلنا ہے تو ڈھائی بجے کی قطر ایئرویز کی فلائٹ سے براستہ دوحہ لندن بھیج دیتے ہیں۔ میں نے بولا کہ نہیں جاؤں گا، جو کرنا ہے کر لو۔ میں آج بھی یہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کا احتساب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جنرل مشرف نے اسے بنایا تھا۔ اس وقت بھی نیب استعمال ہوئی تھی۔ پاکستان میں عہد ستم ختم نہیں ہوتا۔ ستم گر بدل جاتے ہیں اور مظلومین بدل جاتے ہیں مگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔