خادم رضوی کی جماعت کے کارکن نہ تو لاپتہ ہوتے ہیں نہ ان پر مقدمات بنتے ہیں
حیرت انگیز طور پر مولوی خادم رضوی کو نہ تو ریاستی اداروں سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے نہ ہی اس پر کوئی مقدمہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی جماعت کے کارکن نہ تو لاپتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں نامعلوم نمبروں سے سنگین دھمکیوں پر مبنی فون کالز موصول ہوتی ہیں۔ آپ آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے بعد پیدا شدہ ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیجئے۔ یہ جانتے بوجھتے کہ اگر عدالتی فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تو مذہبی شدت پسند ردعمل کے طور پر سڑکوں پر آئیں گے، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی۔ وزیراعظم پاکستان نے ٹی وی پر آ کر قانون اپنے ہاتھ میں لینے والے جتھوں کو تنبیہہ کی کہ ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا لیکن چند گھنٹوں کے بعد ہمیشہ کی مانند یو ٹرن لیتے ہوئے اپنے وزیروں کو بلوائیوں سے مذاکرات کیلئے بھیج دیا۔
جب شہری کو ان بلوائیوں سے محفوظ نہیں کیا جا سکتا تو محصولات حاصل کرنے کے اختیار کا جواز بھی ریاست کے پاس نہیں
تین دن تک ملک مکمل طور پر مفلوج رہا، عوام کو جان و مال کے لالے پڑے رہے اور ریاست ان بلوائیوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر مذاکرات کرنے میں مصروف رہی۔ بطور شہری اگر ایک ریاست مجھے اور آپ کو جان و مال کا تحفظ دینے کے بجائے شر پسندوں سے مذاکرات میں مصروف ہو جائے تو اس کے پاس عوام سے محصولات حاصل کرنے یا عوام کو قانون کی پاسداری کرنے کا حکم دینے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا۔ ان شرپسندوں کے دھرنے کے دوران آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے ججوں کی جس طرح تضحیک کی گئی، اس کی مثال شاید ہی کوئی اور ہو لیکن نہ تو فوج کے ادارے کی جانب سے کوئی رد عمل آیا اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ان شرپسندوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا۔
تین دن ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا اور پھر معاہدہ کر کے گھر چلے گئے
اس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ صرف منتخب نمائندوں کو ہی توہین عدالت کے جرم میں نااہلی اور جیل بھیجنے کی سزائیں سنا سکتی ہے۔ مولوی خادم رضوی نے دل بھر کر تین دن تک سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور پھر بڑے آرام سے ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے گھر جا کر بیٹھ گیا۔ یعنی ریاست نے ایک طرح سے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر آپ چند ہزار بلوائی اکھٹے کر کے مختلف شہروں پر دھاوا بول دیں تو ریاست نہ صرف آپ کے آگے سر تسلیم خم کرے گی بلکہ آپ کے مطالبات پر من و عن عمل کرے گی۔ تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ دراصل ریاست کے سرنڈر کا معاہدہ ہے جہاں ریاست نے ان شدت پسندوں کو خود ہی یہ اختیار سونپ دیا ہے کہ وہ جب چاہیں مذہب کا کارڈ کھیل کر ملک کو مفلوج بناتے ہوئے جلاؤ گھیراؤ کر سکتے ہیں۔
پیغام یہ دیا گیا کہ آئندہ بھی یہی سب کچھ ہوتا رہے گا
کیا عجیب مذاق ہے کہ املاک جلانے، لوگوں کے کاروبار کا نقصان کروانے اور کئی جانیں لینے کے بعد معاہدے میں تحریک لبیک کی جانب سے اس پر معذرت کا اظہار کیا گیا اور ریاست پاکستان نے ہنسی خوشی اس معذرت کو تسلیم کر لیا؟ گویا یہ پیغام دیا گیا کہ آئندہ بھی اگر آپ اس قسم کی کارروائی کریں گے تو ریاست سے معاہدہ کرتے وقت صرف "معذرت" کا لفظ لکھ دیجئے گا آپ کو سب گناہ بخش دیے جائیں گے۔ معاہدے میں آسیہ مسیح کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا اور ریاست نے فوراً اسے تسلیم کر لیا۔ یعنی ایک شدت پسند مولوی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں بکھیر دیں اور ریاست پاکستان نے بلا چوں چرا اس پر ایک لفظ تک نہ کہا۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو گالیاں دی گئیں لیکن مولانا خادم رضوی اور پیر افضل قادری پر کسی قسم کا غداری کا مقدمہ درج نہ ہوا
دھرنے کے دوران تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے فوج کو آرمی چیف کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو گالیاں دی گئیں لیکن مولانا خادم رضوی اور پیر افضل قادری پر کسی قسم کا غداری کا مقدمہ درج نہ ہوا بلکہ خوشی خوشی ان سے معاہدہ کر لیا گیا۔ دوسری جانب صحافی سیرل المیڈا نواز شریف کے ایک بیان کو شائع کرنے کی پاداش میں غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہے اور نواز شریف تو خیر پہلے سے ہی مودی کا یار اور را کا ایجنٹ قرار دیا جا چکا ہے۔ کیا عجیب مذاق ہے کہ جو لوگ ریاست کی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کریں ان کے آگے سرنڈر کیا جاتا ہے جبکہ جو لوگ امن اور دلیل کی طاقت سے اختلاف رائے کا اظہار کریں، انہیں غدار قرار دیا جاتا ہے؟
کیا توہین عدالت اور غداری کے مقدمات صرف منتخب نمائندوں اور قانون پسند شہریوں کی آوازوں کو دبانے کیلئے ہی بنائے گئے ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا توہین عدالت اور غداری کے مقدمات صرف منتخب نمائندوں اور قانون پسند شہریوں کی آوازوں کو دبانے کیلئے ہی بنائے گئے ہیں؟ دوسری جانب شرپسندوں کے سامنے بار بار گھٹنے ٹیک کر نوجوانوں اور بچوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ بندوقیں اور لاٹھیاں اٹھاؤ اور اپنے مطالبات منوا لو۔ اگر کسی کے ایمان کا فیصلہ فرقہ واریت، مسلکی نرگسیت پسندی اور تعصب سے بھرے ہوئے مولوی حضرات یا نام نہاد علما نے کرنا ہے تو پھر اس معاشرے میں بسنے والا کوئی بھی شخص نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی کھل کر یا آزادی سے زندگی بسر کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔ احمدی، مسیحی اور ہندو برادری جس خوف اور ڈر کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے شاید اب اسی خوف اور ڈر کے تلے وہ مسلمان بھی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے جو مذہب کے ٹھیکے داروں کی خود ساختہ تعلیمات کو ماننے سے انکاری ہیں۔
نتیجہ ہم شاید خانہ جنگی کی صورت میں دیکھیں گے
معاشرے کی فکری بلوغت کی بنیاد مذہب اور مذہبی ٹھیکیداروں کے حوالے کر کے سائنس ٹیکنالوجی اور فلاسفی کے میدانوں سے راہ فرار اختیار کر کے اسلاف پرستی کے موذی مرض کو معاشرے میں مزید پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ایک ایسا معاشرہ جہاں پہلے سے ہی کتھارسس کیلئے نفرت اور تعصب کا سہارا لیا جاتا ہو وہاں مولوی خادم حسین جیسے شدت پسندوں کی سربراہی میں جتھوں کو ریاست کے مقابلے میں لا کھڑا کرنے اور پھر انہیں ایک قوت کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد معاشرے میں سرکاری طور پر نفرت تعصب اور شدت پسندی کو ایک جواز فراہم کر دیا گیا ہے۔ ایک مولوی، پیر یا عالم کو آفاقی معاملات کا ٹھیکیدار بنانے کا نتیجہ ہم نے گذشتہ ستر برسوں میں کبھی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور کبھی خودکش دھماکوں کی صورت میں بھگتا۔ اب انہی مولویوں، پیروں اور عالموں کو سیاسی و سماجی اکائیوں کا ٹھیکیدار بنانے کا نتیجہ ہم شاید خانہ جنگی کی صورت میں دیکھیں گے۔
ہمارے ہاں فکری مباحث اور تحقیق کا محور ایک دوسرے کے عقائد کو پرکھنا ہے
بدقسمتی سے اپنے اپنے مسلک، فرقے یا عقیدے کی عینک لگائے ہوئے ہم سب افراد نے اجتماعی طور پر اس معاشرے کو نفرت اور شدت پسندی کی آگ میں جھونکنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا اس وقت مریخ پر زندگی کے تصور پر بحث کر رہی ہے۔ انسانی دماغ کی پیوند کاری سے لے کر مہلک بیماریوں کے علاج دریافت کر رہی ہے، کائنات کی ہئیت پر مباحث اور غورو فکر جاری ہے جبکہ ہمارے ہاں فکری مباحث اور تحقیق کا محور ایک دوسرے کے عقائد کو پرکھنا، ایک دوسرے کے فرقوں اور مسلکوں کو نیچا دکھانا یا پھر توہین مذہب کو جواز بناتے ہوئے مسیحیوں، احمدیوں اور دیگر اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنانا ہے۔ فکری و نظریاتی طور پر دنیا کی جدید تہذیبوں سے شکست کھائی ہوئی تہذیب اس قسم کی خود کش سوچ اور نظریات کا شکار رہ کر کب تک اپنا وجود اور تشخص برقرار رکھ پائے گی اس کا جواب ہر ذی شعور شخص بخوبی جانتا ہے۔
ایسے میں ریاست کا آگے بڑھ کر معاشرے کو ہائی جیک کرنے والی اس سوچ کو شکست دینے کے بجائے اس سوچ کے حامل گروہوں کے سامنے سرنڈر کرنا ہمارے عہد کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ تحریک لبیک کے ساتھ کیا گیا معاہدہ سقوط ڈھاکہ کے معاہدے کی مانند ہے کیونکہ ریاست نے اس معاہدے پر دستخط کر کے خود اپنی رٹ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی محاذوں پر مذہب کو ہتھیار بنانے والے شدت پسندوں کی اجارہ داری تسلیم کر لی ہے۔
لاہور میں کیا جانے والا یہ سرنڈر ریاست کو آگے چل کر ایسے مزید سرنڈرز کرنے پر مجبور کرے گا
جب گذشتہ برس نومبر میں نواز شریف کی جماعت اور حکومت کو کمزور کرنے کیلئے مولوی خادم رضوی کو لانچ کر کے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو اس شدت پسند کے آگے سرنڈر کروایا گیا تھا تو اسی وقت مقتدر قوتوں اور خود عمران خان نے تحریک لبیک کو ریاست کے برابر لا کھڑا کیا تھا۔ آج خود عمران خان اور ان کی حکومت کو تحریک لبیک کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا اور مقتدر قوتوں کو کھلے عام اپنے خلاف گالیاں سننی پڑیں۔ اس سارے کھیل میں شکست ریاست کو ہوئی ہے اور ریاست کا سماجی اور انتظامی ڈھانچہ مزید کمزور ہوا ہے۔ لاہور میں کیا جانے والا یہ سرنڈر ریاست کو آگے چل کر ایسے مزید سرنڈرز کرنے پر مجبور کرے گا۔ جب تک مذہب کو استعمال کر کے طاقت کی بساط پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ہرانے کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا اور ریاست شہریوں کے مذہبی معاملات سے لاتعلقی کا بیانیہ تشکیل نہیں دے گی تب تک خادم رضوی جیسے شدت پسند بلوائیوں کی مدد سے ریاست پاکستان کو یرغمال بناتے رہیں گے۔