آفتاب اقبال نے اپنے سامنے بیٹھے پھر ایک 'پروفیسر صاحب' سے پوچھا کہ آپ نے مجھے روکا کیوں نہیں۔ جواباً 'پروفیسر صاحب' نے کہا کہ میں نے سوچا تھا لیکن عجلت میں وہ بات نکل گئی۔ پھر آفتاب صاحب نے ایک اور 'پروفیسر' صاحب سے پوچھا کہ آپ کے پاس بھی آتا ہے پروگرام ایڈٹ ہونے کے لئے تو آپ کا کام تھا کہ اس قسم کی چیزوں کو نکال دیں۔ کیونکہ اگر کوئی شخص دین نہیں رکھتا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی سب سے بڑی سزا ہی یہ ہے کہ اس کا کوئی خدا نہیں۔
یہ ہے وہ معیار جس پر پاکستانی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ قبل یہ آفتاب اقبال ہی تھے جنہوں نے سلطان راہی اور اداکار شان کے درمیان تقابل کرتے ہوئے کہا تھا کہ سلطان راہی شان کے آگے کیا بیچتا ہے۔ ایکٹر کون بڑا ہے، اس حوالے سے مختلف آرا ہو سکتی ہیں، بہت سے لوگوں کی رائے میں بھی یہ تقابل ناجائز قطعاً نہیں تھا اور شان بہت سے فلم بینوں کے نزدیک ایک بہتر اداکار ہیں، خصوصاً جب وہ سلطان راہی والے کرداروں میں نہیں بلکہ دوسری طرز کے کرداروں میں ہوں، مثلاً سنگم، مجاجن، نکاح یا گھونگھٹ وغیرہ میں۔ لیکن یہ کہنا کہ سلطان راہی کیا بیچتا ہے اس کے آگے، یہاں الفاظ کا چناؤ تضحیک آمیز تھا، اور کسی پڑھے لکھے شخص کو یہ الفاظ زیبا نہیں دیتے۔ بعد میں موصوف نے معافی مانگ لی۔ لیکن یہ ان لوگوں کے لئے بہت بڑا ثبوت ہے جو اس بندے کو دانشور مانے بیٹھے ہیں کہ ٹی وی پر ریسرچرز کی ٹیم کے ساتھ مل کر کچھ مزاحیہ خاکے لکھ لینے، کسی تاریخ دان یا بیوروکریٹ کی کتاب پڑھ کر کسی شہر سے متعلق ایک segment کر دینے یا اپنے سامنے بیٹھے مزاحیہ اداکاروں کے آگے معتبر بن کر بیٹھنے اور ان پر اپنی دانشوری کی دھاک بٹھانے سے کوئی دانشور نہیں بن جاتا بلکہ اس کے لئے بہت کچھ اور بھی چاہیے ہوتا ہے۔ اور علما کے نزدیک تو اس کی سب سے پہلی سیڑھی ہی ادب ہے۔
رہی پرویز ہودبھائی کی بات، تو افسوس اس بات کا نہیں کہ آفتاب اقبال نے پرویز ہودبھائی کو یہ کیا کہہ دیا۔ آفتاب اقبال سے اس سے بہتر کی امید رکھنا یوں بھی کم عقلوں کا کام ہے۔ اردو کی آٹھویں کتاب کے کسی خلاصے سے 'غلط فقرہ کو درست کریں' والی مشقیں نکال کر کوئی زبان و بیان کا ماہر نہیں بن جاتا۔ فرہنگِ آصفیہ بھی آن لائن موجود ہے۔ آپ بھی اسے اپنے سسٹم میں ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ اگر دانشوری کا یہی پیمانہ ہے تو جس بندے نے آن لائن اپلوڈ کر رکھی ہے کہ ڈاؤن لوڈ کرتے جاؤ، اس نے کیسے کیسوں کو دانشور بنا دیا ہے، یہ سوچ کر ہی رونا آتا ہے۔ افسوس تو بلکہ اصل میں ہے ہی اس بات کا کہ یہاں ٹی وی پر کیسا قحط الرجال برپا ہے کہ دانشوری کے پیمانے ہی یہ رہ گئے ہیں۔ اب خود کو آفتاب اقبال سے بڑا دانشور ثابت کرنے کے لئے کسی اور اینکر کو اس سے بھی بڑی چول مارنی پڑے گی۔
جہاں تک ہودبھائی کا تعلق ہے تو ان کو فزکس میں اپنی مہارت ثابت کرنے کے لئے آفتاب اقبال انسٹی ٹیوٹ آف بھانڈ گیری سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ آفتاب اقبال جیسے 36 کروڑ بھی ایک ہودبھائی کی برابری نہیں کر سکتے۔ پرویز ہودبھائی اس معاشرے کا moral compass ہیں۔ وہ جس بات کو درست کہہ دیں، وہی درست ہوتی ہے اور جسے غلط کہتے ہیں، وقت ثابت کرتا ہے کہ وہ غلط ہی نکلتی ہے۔ دوسری طرف آفتاب اقبال ہیں جو نوائے وقت میں اپنے 'حسبِ حال' کالم میں کئی سال ق لیگ اور جنرل مشرف کی نمائندگی کرنے کے بعد ایکسپریس نیوز کے پلیٹ فارم سے مسلسل اس 'ہائبرڈ نظام' کے قیام کے لئے کوشاں رہے جس سے آج خود اس نظام کے چلانے والے تھک چکے ہیں اور جن کے لئے یہ نظام وجود میں لایا گیا تھا، ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا ملک میں ہو کیا رہا ہے، ڈالر کا کیا ریٹ ہے، اسلحہ بردار جتھوں سے ان کے وزرا کیا معاہدے کر رہے ہیں، مہنگائی کا ملک میں عالم کیا ہے۔۔۔ وہ تو جرمنی اور جاپان کی سرحد پر لگی کسی فیکٹری کا نقشہ دل میں لیے اقتدار میں آ گئے اور ٹیلی وژن پر یہ موصوف اپنا چینل بند کروا بیٹھنے کے بعد اب کبھی نجم سیٹھی پر کیچڑ اچھال کر خبروں میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی سلطان راہی پر تو کبھی پرویز ہودبھائی پر۔
پرویز ہودبھائی کے کریڈٹ پر کتنے مقالے ہیں، ان کی معاشرتی معاملات اور تعلیم کے ایشوز پر لکھی گئی انگنت تحاریر ملک کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ آفتاب اقبال کی قوم کے لئے خدمات میں گھوڑا کیسے بولتا ہے، بھنک میں بھ کے نیچے زیر نہیں زبر ہے اور پلاؤ کو کباب کے ساتھ کھایا جائے تو اس کی لذت ہی اور ہو جاتی ہے جیسی گراں قدر خدمات شامل ہیں جنہیں جو لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ انہیں دانشور بھی سمجھتے ہیں لیکن افسوس کہ جس MIT سے پرویز ہودبھائی نے PhD کر رکھی ہے، آفتاب اقبال اور ان کے اگلے پچھلے بھی شاید اس کے BSc Math کا ایک سوال حل نہیں کر سکتے۔ مذہب کارڈ انہوں نے کھیلا، اس کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جس کے پلے کچھ نہیں ہے، وہ خود کو بہتر مولوی بتا کر دوسروں سے خود کو افضل ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہودبھائی کا مذہب کیا ہے، کوئی ہے یا نہیں ہے، اس سے اسی کو غرض ہو سکتی ہے جس کو سائنس نامی بلا سے کم از کم کوئی غرض نہیں۔ اس کے کبھی پلے ہی نہیں پڑی۔ ان کی علمی قابلیت کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ پانی سے چلنے والی گاڑی کو مذاق ثابت کر دیں تو یہ آپ کو عالم سمجھ لیں گے۔ وگرنہ اس کے لئے کوئی عالم وغیرہ ہونے کی تو ضرورت ہے نہیں۔ اور مذہب کے بارے میں کچھ پتہ چل جائے تو یہ آپ کو فزکس کا عالم ماننے سے بھی انکار کر دیں گے۔ ان پر تو ترس آنا چاہیے کہ ہودبھائی سے جنہیں نفرت ہے وہ ان سے کیسی کیسی بونگیاں مارنے کو کہتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ سب انہیں کہنا پڑتا ہے کیونکہ حکم کے غلام ہمیشہ حکم کے غلام ہی رہتے ہیں۔ یہ پانی سے چلنے والے دانشور کسی حقیقی دانشور کے سامنے بیٹھیں تو اتنی ہی دیر چلیں گے جتنی دیر آغا وقار چلے تھے ہودبھائی کے ساتھ بیٹھ کر۔