احمد فراز خان کی بدھ کو ڈان اخبار میں چھپی رپورٹ کے مطابق میڈیا سے لانگ مارچ کا تازہ شیڈول شیئر کرتے ہوئے فواد چودھری کا کہنا تھا کہ حقیقی مارچ کی ریلی اتوار کو بھی اسلام آباد نہیں پہنچے گی، لانگ مارچ 3 نومبر کو گجرات پہنچے گا جب کہ جمعہ کو لالہ موسیٰ میں پڑاؤ ڈالے گا۔
اس سے قبل گوجرانوالہ کے اندر تقریباً 10 کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد مارچ کو روک دیا گیا جب کہ پارٹی سربراہ اپنی لاہور کی رہائش گاہ واپس آ گئے۔ پارٹی کے نئے شیڈول کے مطابق مارچ آج گوندلانوالہ چوک سے شروع ہوگا اور 15 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد گکھڑ منڈی پر اختتام پذیر ہوگا۔
پہلے پانچ دنوں میں حقیقی مارچ نے مشکل سے 100 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا، پی ٹی آئی اپنی منزل وفاقی دارالحکومت پہنچنے سے پہلے اگلے دس دن تک سڑک پر رہنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
دوسری جانب پارٹی کے اندرونی ذرائع نے مارچ کی سست رفتار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اس امید کے ساتھ 'اعصاب کی جنگ' میں مصروف ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت نئے انتخابات کے لئے ان کے مطالبے کو تسلیم کر لے گی۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ مارچ بھی 'رفتار کی کمی' سے دوچار ہے کیونکہ مارچ میں آنے والا 'ہجوم اتنا بڑا نہیں تھا حکومت یا اسٹیبلشمنٹ ڈر جائے'۔ یہ تمام عوامل عمران خان کو مطلوبہ نتائج کے لئے momentum پیدا کرنے میں مزید وقت لگانے پر مجبور کر رہے ہیں، جس کا تاحال کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
دریں اثنا، پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما نے دعویٰ کیا کہ پارٹی لانگ مارچ کے لئے اسلام آباد میں داخلے کے اپنے منصوبوں پر نظر ثانی کر رہی ہے کیونکہ وفاقی حکومت کا تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مارچ کرنے والوں سے نمٹنے کا مصمم ارادہ ہے۔
راولپنڈی میں مارچ کے روکنے جانے کا امکان ہے، انہوں نے دعویٰ کیا۔ پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ فیصلے پر غور کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت پنڈی میں دھرنا دینے کا سوچ رہی ہے کیونکہ وہ صوبے میں برسراقتدار ہے۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ دوسری وجہ گیریژن سٹی کی ’علامتی‘ اہمیت ہوگی جس میں جنرل ہیڈ کوارٹر ہے، جس سے عمران خان بظاہر ڈیل کی تلاش میں ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پارٹی میں دھرنے کے مقام پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ اس وقت کیا جائے گا جب مارچ راولپنڈی میں داخل ہوگا۔