میں نے تب جواباً کہا کہ محترم آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کتنے فیصد عوام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ایکٹیو ہیں؟ پاکستان میں جن کے پاس موبائل فون ہیں ان میں سے کوئی 20 ہی فیصد آبادی ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کرتی ہے اور ان میں سے کوئی 70 فیصد عوام اگر عمران خان کے ساتھ موجود ہے تو یہ پورا پاکستان کیسے بنتا ہے؟ زمینی حقائق تو بالکل مختلف ہیں اور اصل مسائل تو کبھی سوشل میڈیا پر اجاگر ہی نہیں ہوتے۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا بریگیڈ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کمال انداز میں اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے جس کی بنیاد پر یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید تمام پاکستان ہی عمران خان کے بیانئے کا داعی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اس پروگرام کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ عالمی سطح پر ہمارا مؤقف اور حالات کا تجزیہ صرف وہی جاتا ہے جو سوشل میڈیا پر موجود ہے، خاص طور پر جو ٹویٹر ٹرینڈز موجود ہیں۔ دنیا ہمارے مسائل اور حالات کا اندازہ صرف ٹویٹر ٹرینڈز سے لگاتی ہے اور یہ بات تحریک انصاف کی قابلیت کو ظاہر کرتی ہے کہ انہوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور مکمل طور پر اسے اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے سے خوب پھیلایا ہے۔ جبکہ باقی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا رجحان اس طرف ہے ہی نہیں جو ان کی شکست کا باعث ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حالات بدل چکے ہیں، جس کا سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا مضبوط ہے وہ سیاسی جماعت اور لیڈر دنیا بھر میں پاپولر تسلیم کیا جائے گا۔ وگرنہ آپ چاہے سچائی پر چلیں یا جمہوری و آئینی باتوں کا راگ الاپیں، اب وہ 90 کی دہائی نہیں رہی۔
اسی تناظر میں مجھے ایک ملاقات کی بات یاد آ گئی۔ ابھی کچھ روز قبل میں لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں چند اہم شخصیات کے ساتھ بیٹھا تھا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما موجود تھے جن کا بلاول اور زرداری صاحب کے ساتھ کافی پرانا اور مضبوط خاندانی تعلق ہے۔ میں نے ان سے بھی سوال کیا کہ آپ لوگ کیوں سوشل میڈیا ٹیموں پر توجہ نہیں دیتے؟ حالانکہ بلاول نوجوان لیڈر ہیں اور عوام کو متاثر کر سکتے ہیں اگر آپ کی سوشل میڈیا مہم اچھی ہو۔ اس پر انہوں نے زرداری صاحب کا ایک جملہ بیان کر کے مجھے خاموش کرا دیا۔ کہنے لگے کہ میں نے زرداری صاحب سے اس حوالے سے بات کی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ کیا ضرورت ہے کروڑوں روپے ہر مہینے سوشل میڈیا پر لگانے کی جب ہم 50 کروڑ میں 5 سینیٹرز خرید کر پوری پوری حکومتیں گرا لیتے ہیں۔ ان کا اشارہ سینیٹ انتخابات اور بلوچستان کی حکومت گرانے کی جانب تھا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا سٹریٹیجی سرے سے موجود ہی نہیں۔ ان کے نزدیک آج بھی وہ اپنا بیانیہ بنانے کے لیے 2010 والا ٹول استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں کہ مین سٹریم میڈیا کے اینکرز کو چینلز پر اپنا بیانیہ پیش کرنے کے لیے میڈیا فنڈز کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کو اس بات کی جانب راغب ہونا چاہئیے کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ کوئی بھی شخص اب مین سٹریم میڈیا سے اپنا بیانیہ چننے کو ترجیح نہیں دیتا۔ آپ کو نوجوان ایکٹیوسٹوں کی ضرورت ہے۔ پیسہ اور مارکیٹنگ آپ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نئے چہروں کی مدد سے کروانی ہو گی جبکہ (ن) لیگ کے پاس انتہائی نا تجربہ کار ٹیم موجود ہے جو سفارشی بنیادوں پر ان کی جماعت میں سوشل میڈیا کو ہینڈل کر رہی ہے۔ یہ ٹیم کسی قسم کی سوشل میڈیا سٹرٹیجی سے واقف نہیں ہے۔ (ن) لیگ کے اکثر ورکرز کی ٹویٹس آپ ملاحظہ کریں جو اپنے لیڈران خصوصی طور پر مریم نواز کو مینشن کر کے شکوہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم اتنے لمبے عرصے سے (ن) لیگ کا مؤقف مشتہر کر رہے ہیں مگر آپ ہمیں فالو نہیں کرتیں۔
اس کے برعکس تحریک انصاف کی تمام تر مارکیٹنگ نئے لوگوں اور نوجوان ایکٹیوسٹوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی فیکٹر سوشل میڈیا پر نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کا ہے۔ مثال لیجئے کہ ایک نئے ورکر یا سپورٹر کی ٹویٹ کو اس کا پارٹی لیڈر یا سینیئر رہنما لائیک یا شیئر کر دے یا پارٹی کا آفیشل اکاؤنٹ اسے لائیک یا ری ٹویٹ کر دے تو اس شخص کا حوصلہ خود بخود بڑھ جاتا ہے اور وہ پارٹی بیانیے کا پرچار پہلے سے کئی گنا زیادہ کرتا ہے۔ یہی تحریک انصاف کی سٹریٹیجی میں شامل ہے۔ ان کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر نئے نئے چہروں کی ٹویٹس، ری ٹویٹس یا نئے ایکٹیوسٹوں کے وی لاگز شیئر ہوتے رہتے ہیں۔ تحریک انصاف خود ایک نیا ایکٹیوسٹ بناتی ہے اور اس سے اپنی پارٹی کا پرچار کرواتی ہے جس سے نئے شخص کی اپنی برینڈنگ بھی ہوتی ہے اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ کو ایک اور بریگیڈیئر مل جاتا ہے۔
ابھی لاہور میں ہونے والی جس نشست کا ذکر ہو رہا تھا اس نشست میں ہمارے ہمراہ ایک ایسا ہی تحریک انصاف کا ایکٹیوسٹ بھی موجود تھا جو باقاعدہ رجسٹرڈ ایکٹیوسٹ ہے اور حکومت سے لے کر اداروں تک تم افراد تک ان کی رسائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی مہینے سے ہمیں لائنز ملنا بند ہو چکی تھیں، رابطے منقطع تھے۔ یہ وہی رابطے ہیں جن کو اکثر خفیہ ذرائع بھی کہا جاتا ہے اور یہ جہاں سے آتے ہیں اب تو ان کا کھل کر انکشاف ہو چکا ہے۔ یہ صاحب فرمانے لگے کہ اب دوبارہ ہماری لائنیں بحال ہو چکی ہیں۔ جیسے ہی ملک کی اہم تعیناتی قریب آئی ہے اور خان کے لانگ مارچ کا آغاز ہوا ہے تو منقطع لائنیں پھر سے بحال ہو گئی ہیں اور اب ہمیں پھر سے لیڈز ملنا شروع ہو گئی ہیں۔
ان لائنوں میں کیا بیانیہ اور لیڈز آ رہی ہیں، اس بارے میں بھی ان صاحب نے کچھ ارشادات فرمائے مگر وہ یہاں نہیں بتائے جا سکتے۔ قصہ مختصر یہ کہ لانگ مارچ کا نومبر میں ہونا اور سست روی کے ساتھ اسلام آباد پہنچنا تا کہ تقرری کا وقت قریب آجائے، یہ سب محض اتفاق نہیں ہے۔