معروف دانش ور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی اور وقت سے پہلے الیکشن؛ عمران خان کے یہ دو بڑے مطالبات تھے تو اب یہ مجھے اینڈ گیم نظر آ رہی ہے کیونکہ باجوہ صاحب نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دی ہیں اور عمران خان نے آج کہہ دیا ہے کہ 10 مہینے تک تحریک جاری رکھیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے دونوں مطالبے رد ہو چکے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اسلام آباد آئیں گے، جلسہ کریں گے، ان کا بڑا کامیاب جلسہ ہوگا اور وہ فتح کا اعلان کرکے جلسہ ختم کرکے گھر کو چلے جائیں گے۔ اگر ان کی مرضی کی تعیناتی نہ بھی ہوئی تو پھر بھی وہ نئے آرمی چیف کا استقبال کریں گے۔ ان سے سیاست نہ ہو سکی تو وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ نئے آرمی چیف کو چیلنج کریں گے۔ عمران خان راستے میں لانگ مارچ ختم نہیں کریں گے، انہیں اپنی سیاست اور جماعت کو بچانے کے لیے اسلام آباد آنا ہی پڑے گا۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ نرم گوشہ رکھنے والے جج کی جانب سے یہ بیان آنا کہ 20 ہزار لوگ لا کر 2 لاکھ لوگوں کی زندگیاں مشکل نہیں بنا سکتے، بہت اہم ہے۔ عدلیہ کا ترازو زیادہ دیر تک اب ایک جانب کو جھکا نہیں رہے گا۔ 25 مئی کیس سے متعلق جتنا واضع مواد سامنے آ چکا ہے عمران خان کی یہ بات کہ مجھے عدالت کے حکم کا پتہ نہیں چلا تھا کوئی نہیں مانے گا۔ پیکا آرڈی ننس جیسے قوانین نافذ کر کے ہمیں چین، روس، شمالی کوریا اور ترکی والے راستے پر نہیں چلنا چاہیئے۔ ہماری تاریخ رہی ہے کہ یہاں جو زنجیریں بناتا ہے بعد میں اسے ہی پہنائی جاتی ہیں۔
معروف صحافی کامران یوسف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے انقلاب اور جہاد سے متعلق جتنی سنسنی پھیلائی تھی اتنے لوگ نہیں نکلے۔ یہ اس طرح کا لانگ مارچ نہیں کہ لوگوں کی تعداد سے ملک میں کوئی تبدیلی آ جائے گی۔ 25 مئی والے کیس سے متعلق جو چیزیں ریکارڈ پر ہیں ان کی بنیاد پر عمران خان کے لیے تھوڑی سی مشکلات ضرور پیدا ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ آرمی چیف عمران خان کی مرضی کا نہیں لگتا تو میرا نہیں خیال وہ ان کو نام لے کر تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ضرورت ٹارگٹ کریں گے۔
پیکا آرڈی ننس میں تجویز کی جانے والی ترمیم سے متعلق انہوں نے کہا کہ حکومت کو سوچنا چاہیئے کہ اس جال میں کل وہ خود بھی پھنسیں گے۔ اگر کوئی قانون لانا ہے تو پارلیمنٹ میں سب سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس پر بحث کیوں نہیں کرتے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ آج کے ریمارکس کو دیکھیں تو عدلیہ کا رویہ بدلا نظر آ رہا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔ سپریم کورٹ میں آج اس فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا جو تحریک لبیک کے دھرنے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا۔ یہ بدلاؤ کے اشارے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سڑکوں پر بھی پھر رہے ہیں اور رات کو مذاکرات بھی کرتے ہیں۔ وہ تمام آپشن دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کہاں سے فائدہ مل سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان اب سیاست سیکھ گئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ لانگ مارچ 11 نومبر کے بجائے 29 نومبر کو راولپنڈی پہنچے گا اور عمران خان نئے آرمی چیف کے استقبال کے لیے گلدستہ لے کر پہنچیں گے۔