پاکستان کی فلمی صنعت میں سنہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں کو بجا طور پر وحید مُراد کا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ان کے 81ویں یوم پیدائش پر سرچ انجن گوگل نے اپنے ہوم پیج پر ’ڈوڈل‘ لگا کر انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے جس پر پاکستان بھر سے سوشل میڈیا صارفین گوگل کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی وحید مراد آج ٹاپ ٹرینڈ ہیں۔
انہیں ’وومن کِلر‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جس طرف آنکھ بھر کر دیکھ لیتے سامنے والا جکڑا جاتا۔انہوں نے 124 فلموں میں کام کیا جو آج بھی لالی وڈ کا اثاثہ ہیں۔ وفات کے 27 سال بعد 2010 میں ان کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔
11 نومبر کو وہ اپنے چھ سالہ بیٹے عادل کو ساتھ لے کر کراچی چلے گئے۔ ان کی اہلیہ سلمیٰ مراد اپنی بہن مریم عیسیٰ سے ملنے امریکہ گئی ہوئی تھیں۔ ان کی بیٹی عالیہ بھی ساتھ گئی تھیں۔
کراچی میں وحید کے دو فلیٹ تھے لیکن وہ ڈیفنس سوسائٹی میں اپنی منہ بولی بہن بیگم ممتاز ایوب کے گھر ٹھہرے۔ 13 نومبر کو اُنہوں نے عادل کی ساتویں سالگرہ منائی۔ اگلے دن مِڈ ایسٹ اسپتال میں پلاسٹک سرجری کے آپریشن کے لیے وقت لیا۔
انہیں 24 نومبر کا کوئی وقت دیا گیا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔
https://www.youtube.com/watch?time_continue=5&v=cR8xwybME_4
نومبر کی 23 تاریخ کو علی الصبح ان کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔ ان کی میّت اُن کی والدہ کے پاس لاہور لے جائی گئی۔ وہ صدمے سے بے حال ہو گئیں۔
وحید مراد کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لاہور میں اسٹوڈیوز بند ہو گئے۔ نا صرف فلمی صنعت کے لوگ اُن کی کوٹھی کی طرف چل پڑے بلکہ مداحوں کا ایک ہجوم بھی جنازے کے لیے جمع ہو گیا۔
ہدایت کار شوکت ہاشمی کا بیان ہے کہ وحید مراد کے جنازے میں تقریباً پچیس تیس ہزار کا مجمع تھا ۔