ملکی سالمیت میں کنڈوم کا کردار

12:51 PM, 2 Oct, 2019

نیا دور

ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لوگ دھڑا دھڑ بچے پیدا کرنے کے شوقین ہیں اور اس کام میں چین اور بھارت کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ایسے میں قرضوں پر چلنے والے ایٹمی ملک کی سالمیت کو اصل خطرہ باہر سے ہوا یا اندر سے؟


بھٹ شاہ شہر کے ایک گھر میں درجنوں خواتین جمع ہیں۔ کچھ کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں، کچھ اپنی بڑی بوڑھیوں کے ہمراہ ہیں۔ چارپائیوں پر بیٹھی ان عورتوں کے بیچ  ایک خاتون کھڑی ہیں۔ ان کے سامنے ایک ڈبہ ہے، جس میں سے وہ ایک ہاتھ میں کنڈوم کا پیکٹ اور دوسرے میں انجیکشن کے ڈبے نکال کر انہیں دکھاتی ہیں،''یہ آپ کے شوہر کا وقفہ ہے اور یہ  آپ کا، جسے چھلّہ کہتے ہیں۔‘‘ اُن کی اس بات پر کچھ نوجوان مائیں ہنس کر اپنا منہ ڈھانپ لیتی ہیں تو کچھ جھینپ جاتی ہیں۔

لیکن شاہدہ سومرو کی لیے یہ ردعمل نیا نہیں۔ جس معاشرے میں جنسی تعلیم اور صحت پر بات کرنا 'بےحیائی سمجھا‘ جاتا ہو، وہاں ایسا ہوتا ہے۔

شاہدہ پچھلے تیرہ سال سے سندھ کے محکمہ بہبود آبادی میں لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ ان کا کام خواتین کو مانع حمل کے بارے میں آگہی دینا اور انہیں سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے مفت امداد دلوانا ہے۔

شاہدہ کا کہنا ہے کہ اکثر عورتیں لگاتار بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ یہ نہ ان کی صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے خاندان کے لیے۔ لیکن  وہ کہتی ہیں کہ، ''اگر عورت بچوں کی پیدائش میں وقفے کی بات کرے تو اُسے گھر والوں سے باتیں سُننا پڑتی ہیں۔"

ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زچہ و بچہ کی فلاح و بہبود میں لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کا اہم کردار رہا ہے۔ نوّے کی دہائی میں شروع ہونے والے اس پروگرام کو عالمی سطح پر بھی خاصی پذیرائی ملی۔ ہزاروں پڑھی لکھی لڑکیوں کو روزگار ملا اور وہ اپنے محلوں،  گلیوں اور دیہات میں لاکھوں ایسی خواتین تک پہنچیں، جن تک محکمہ صحت کے اہلکار نہیں پہنچ پاتے۔

لیکن حالیہ برسوں میں یہ پروگرام بھی ملک میں خراب طرز حکمرانی اور بد انتظامی کا شکار ہو گیا ہے۔ شاہدہ سومرو جیسی ہزاروں ہیلتھ ورکرز کو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتی اور وہ اپنے کام پر توجہ دینے کی بجائے سڑکوں پر آ کر مظاہرے کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

تحصیل ہالا  کے گاؤں بھانوٹ میں قائم سرکاری ہسپتال کے سینیئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر ندیم شاہ کہتے ہیں کہ، ''اصل مسئلہ غلط حکومتی ترجیحات کا ہے۔ ہمارے یہاں حکومتوں نے کبھی بھی فیملی پلاننگ کو وہ اہمیت نہیں دی، جو دینی چاہیے۔‘‘

نتیجہ یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان کی آبادی دوگنی ہونے جا رہی ہے۔ خطے میں بھارت اور چین دنیا کے دو سب سے بڑے ملک ہیں لیکن لگاتار بچے پیدا کرنے میں پاکستانی انہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہی روش رہی تو رواں صدی کے نصف تک یعنی اگلے  تیس برس میں  پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے دوگنی ہو کر چالیس کروڑ ہو جائے گی۔

 

 

 
مزیدخبریں