پشاور کے علاقہ قصہ خوانی ڈھکی میں رہائش پذیر فضیلت بی بی گزشتہ سات برس سے اپنے گھر کا چولہا اسی رکشہ سے جلانے کی کوشش میں ہے ۔ موسم کی سختیوں نے فضیلت بی بی کو اس قابل بنایا ہے کہ اونچی سے اونچا پہاڑ فضیلت بی بی کیلئے معمولی سفر کے مانند ہوتا ہے کیونکہ زندگی جب اس موڑ پر آجائے کہ نہ اپنے ہوں اور نہ پرائے تو انسان ہر ناممکن چیز کو ممکن بنا دیتا ہے۔
فضیلت بی بی کہتی ہے کہ "جب تھک جاتی ہوں تو کسی جگہ رک کر خون کے آنسوں روتی ہوں کہ یہ بھی بھلا کوئی زندگی ہے مگر کیا کریں کسی کے سامنے ہاتھ تو نہیں پھیلا سکتی ، گھر میں کوئی مرد نہیں اس لئے زندگی مشکلات کا شکار ہے،مردوں کے کپڑے اس لئے پہنتی ہوں کہ باہر کوئی پہچان نہ لیں مگر سات برسوں سے پشاور کی گلیوں میں گھوم رہی ہوں ، اب تقریبا ہر کسی نے پہچان لیا ہے کہ یہ خاتون ہے"
کرائے کے گھر میں وہ اپنی ماں کے ساتھ اکیلی رہتی ہیں، اور خودداری کی یہ انتہا کہ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی قسم کی مزدوریاں کرچکی ہیں۔
اسکی ماں نے بھی زندگی میں مختلف قسم کی مشکلیں جھیلیں ہیں، کہتی ہے کہ " میری بیٹی فضیلت یہ رکشہ مجبوری کے تحت چلارہی ہے، اور کوئی نوکری ہے نہیں جس کے ذریعے گھر کا چولہا جل سکیں ، اس سے پہلے بھی مختلف قسم کی مزدوریاں کرچکی ہے اور پھر آخر کار رکشہ چلانے کا فیصلہ کیا، لاک ڈاون کے دوران ہماری زندگی اور بھی مشکلات کا شکار ہوئی تھی اور اب بھی زندگی انتہائی اجیرن ہے مگر حوصلہ نہیں ہارا"
فضیلت بی بی پشاور کی پہلی خاتون رکشہ ڈرائیور ہے، کہتی ہے کہ نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی کبھی کبھار اسے ہراساں کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
اس کے بارے میں وہ کہتی ہے کہ " پشاور میں ایک خاتون کا رکشہ چلانا آسان کام نہیں اور پھر آجکل کے دور میں جب پورے ملک میں خواتین کو حراساں کرنے کی خبریں ہر وقت میڈیا کی سرخیاں بنی رہتی ہے، بہت کم مرد حضرات ایسے ہوتے جو بات نہیں کرتے باقی نصف سے زائد نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی چھیڑتی ہے، مگر میں صرف آگے کی طرف دیکھ کر باتیں سنتی ہوں "
بھوک کا غم انسان کو کئی راستے دکھاتا ہے جس کی زندہ مثال پشاور کی فضیلت بی بی ہے جس نے مجبوری کی تحت رکشہ چلاتے ہوئے اپنے گھر کا چولہا اور دیگر ضروریات پوری کرنے کیلئے رکشہ جیسی سواری چلانے پر مجبور ہے۔