کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ ستمبر کے مہیننے میں کمیشن نے 63 لوگوں کا سراغ لگالیا جن میں 53 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے، پانچ افراد فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز (انٹرنمننٹ سنٹرز) میں قید ہے، چار گمشدہ افراد ملک کے مختلف جیلوں میں قید ہے، تین جبری طور پر گمشدہ افراد کی لاشیں ملی جبکہ گیارہ کیسز کو جبری گمشدگی کے کیسز نہ ہوتے ہوئے خارج کیا۔
فوج کے زیر نگرانی حراستی مرکز میں قید شہری آپریشن نے خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والد محمد ولد یار اللہ کے کیس پر کارروائی کی اور کمیشن کو بتایا گیا کہ جبری طور پر گمشدہ شخص اس وقت فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مرکز لکی مروت میں فوج کی حراست میں ہے۔
کمیشن نے خیبر پختون خوا کے ضلع کرم کے رہائشی اقبال محمد ولد حضرت خان کے کیس پر بھی سماعت کی اور کمیشن کو ملٹری انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے بتایا کہ اقبال محمد (In aid of civil power regulation 2011) کے تخت انٹرنمنٹ سننٹر لکی مروت میں قید ہے۔
کمیشن نے میکائل خان ولد حیات کا کیس بھی اُٹھایا جس پر ملٹری انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے کمیشن کو جواب دیا کہ موصوف اس وقتIn aid of civil power regulation 2011) (قانون کے تخت انٹرنمنٹ سنٹر لکی مروت میں قید ہے۔
کمیشن نے خیبر پختون خوا کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے محبوب شاہ ولد ملیزے خان کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشن کو بتایا گیا کہ وہ اس وقت انٹرنمنٹ سنٹر لکی مروت میں قید ہے۔
کمیشن نے صوبہ سندھ کے ضلع سکر سے تعلق رکھنے والد شہری اسجد وحید خان ولد افضل وحید خان کا کیس بھی اُٹھایا جس پر ملٹری انٹیلیجنس سے اہلکاروں نے کمیشن کو رپورٹ جمع کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت وہ انٹرنمنٹ سنٹر لکی مروت میں قید ہے۔
جبری گمشدگیوں میں جان بحق ہونے والے تین افراد کون ہے؟
کمیشن نے جبری طور پر گمشدہ وزیر ولد حضرت محمد سکنہ زرگر آباد پشاور کے کیس کو بھی اُٹھایا جس پر کمیشنن کو ان کے لواحقین نے بتایا کہ پشاور کے علاقے متھرا میں ان کی لاش ملی ہے جس کے بعد کمیشن نے اس کیس کو خارج کیا۔
کمیشن نے پشاور کے کوچی بازار سے تعلق رکھنے والے اکبر بلال ولد محمد جاوید کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیشنن کو ان کے لواحقین نے بتایا کہ ان کی لاش پشاور سے برامد ہوگئی ہے جس کے بعد کمیشن نے اس کیس کو بھی بند کردیا۔
کمیشن نے کلی روشن آباد کے رہائشی احسان اللہ ولد سعید محمد کا کیس بھی اُٹھایا جس پر کمیش کو بتایا گیا کہ احسان اللہ کی لاش ملی تھی اور ان کے خاندان کے افراد کو لاش دی گئی جس پر کمیشنن نے اس کیس کو بھی کردیا۔
کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں جبری طور پر گمشدہ 2150 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جبکہ 842 افراد انٹرنمنٹ سنٹرز میں قید ہے جن میں زیادہ تعداد خیبر پختون خوا کے رہائشیوں کی 701 ہے۔ کمیشن نے مزید کہا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں 216 جبری طور پر گمشدہ افراد کی لاشیں مل چکی ہے جس میں زیادہ تعداد پنجاب کے شہریوں کی 66 ہے۔