عمر شریف 19 اپریل 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام محمد عمر تھا اور پیشہ ورانہ طور پر وہ عمر شریف کے نام سے جانے جاتے تھے اور اسی نام سے انہوں نے شہرت پائی۔ وہ پاکستانی اداکار و کامیڈین ہونے کے ساتھ ایک ہدایت کار، پروڈیوسر اور ٹی وی کی معروف شخصیت بھی تھے۔ انہیں جنوبی ایشیا کے نامور و بڑے کامیڈینز میں سےایک مانا جاتا ہے جبکہ انہیں پاکستان میں کامیڈی کے بے تاج بادشاہ کا لقب بھی دیا گیا ہے۔
عمر شریف نے 14 برس کی عمر میں اپنے کیریئر کا آغاز ایک اسٹیج ڈرامے سے کیا اور طنز و مزاح کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ انہوں نے برصغیر میں 1980 ، 1990 اور 2000 کی پہلی دہائی میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
عمر شریف کے کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو پہلی چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت شہرت حاصل کی جب کامیڈین معین اختر، اسماعیل تارا اور ماجد جہانگیر انتہائی مقبول تھے۔ ٹی وی کی دنیا میں قدم جمانے کے لیے مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے عمر شریف نے تھیٹر کی دنیا کا انتخاب کیا اور اپنا نام بنایا۔ انہوں نے اپنی کامیڈی سے کراچی کے ناظرین کی توجہ حاصل کی اور اپنے کیریئر کے سفر کا آغاز کیا جو 40 سال کے عرصے تک محیط رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ عمر شریف نے اپنے چٹکلوں اور مکالموں سے ملک بھر میں مقبولیت پائی۔
https://youtu.be/yKjSDTOI4nA
عمر شریف نے 50 سے زائد اسٹیج ڈراموں میں کام کیا تھا کہ جبکہ 'بکرا قسطوں' سے انہیں عالمی سطح پر بھی شہرت ملی۔ ان کے مقبول اسٹیج ڈراموں میں 'میری بھی تو عید کرادے'، یہ ہے نیا تماشہ' یہ ہے نیا زمانہ' اور 'بڈھا گھر پر ہے' شامل ہیں۔ بعدازاں انہوں نے فلمی صنعت کا بھی رخ کیا اور بطور اداکار و ہدایت کار لاہور میں کچھ فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے 'حساب'، 'کندن'، 'مسٹر 420'،'خاندان' اور 'لاٹ صاحب' جیسی فلموں میں بھی کام کیا، جن میں 'مسٹر 420' کافی مقبول ہوئی ۔
جب الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو وہ کراچی واپس آگئے تھے، انہوں نے مختلف پلے کیے، اور ٹاک شوز کی میزبانی کی، انہوں نے نجی چینل جیو ٹی وی پر 'دی شریف شو' کی میزبانی بھی کی۔ وہ 'ففٹی ففٹی'، 'پردہ نہ اٹھاؤ' ،' عمر شریف ورسز عمر شریف ' جیسے ٹی وی شوز کا حصہ بھی رہے۔
انہوں نے بھارت کے کامیڈی شو 'دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج ' میں نوجوت سنگھ سدھو اور شیکھر ثمن کے ساتھ مہمان جج کے فرائض بھی سرانجام دیے تھے۔
وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے حد مقبول تھے، جونی لیور اور راجو شریواستو جیسے کامیڈینز انہیں' ایشین کامیڈین کا شہنشاہ ' قرار دیتے تھے۔
ان کی علالت کی خبروں پر بھی بھارتی گلوکار دلیر مہندی اور کامیڈین و اداکار جونی لیور نے اپنے خصوصی پیغامات جاری کرتے ہوئے تشویش بھی ظاہر کی تھی۔ وہ مختلف ایوارڈز اور نمائشوں میں شرکت کے لیے بھارت بھی جاتے رہے اور وہاں کی عوام کو بھی اپنے فن سے محظوظ کیا۔
عمر شریف کو 1992 میں 'مسٹر 420' کے لیے بہترین اداکار اور ہدایت کار کے نیشنل ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے10 نگار ایوارڈ حاصل کیے اور ایک ہی برس میں 4 نگار ایوارڈز حاصل کرنے کا اعزاز بھی پایا۔
اپنے فن کے ذریعے ملک کا نام روشن کرنے پر ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے عمر شریف کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
وہ گزشتہ ایک ماہ سے علیل تھے، انہیں عارضہ قلب لاحق تھا اور علاج کی غرض سے 28 ستمبر کو امریکا کے لیے بذریعہ ایمبولینس روانہ ہوئے تھے تاہم طبیعت خراب ہونے پر جرمنی کے ہسپتال میں داخل ہوئے اور وہیں انتقال کرگئے۔