فیض آباد دھرنا کیس، فریقین کو حقائق پیش کرنے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں: عدالتی حکم نامہ

تحریری حکمنامے میں کہا گیا  کہ عدالت فریقین کو حقائق بتانے کے لیے ایک اورموقع فراہم کررہی ہے۔ کوئی بھی فریق یا شخص اپنا جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا دے۔

02:07 PM, 2 Oct, 2023

نیا دور

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی 28 ستمبر کی سماعت کا چار صفحات  پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔   چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے جس کے پاس بھی معلومات ہوں سامنے لائے۔

فیض آباد نظرثانی دھرنا کیس کی سماعت کا حکمنامہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے جس میں تمام فریقین کو اپنے جوابات 27 اکتوبر تک جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

تحریری حکمنامے میں کہا گیا  کہ عدالت فریقین کو حقائق بتانے کے لیے ایک اورموقع فراہم کررہی ہے۔ کوئی بھی فریق یا شخص اپنا جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا دے۔ کیس کی آئندہ سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔

 عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا محدود وقت کیلئے تھا دائرہ کار کو وسیع نہیں کیا جانا چاہیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع اپنی نظرثانی درخواست پر مزید کاروائی نہیں چاہتی۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی جب کہ تحریک انصاف کے مطابق فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔

حکمنامے کے مطابق شیخ رشید کے وکیل نے آن ریکارڈ نے التواء کی استدعا کی ہے۔ شیخ رشید کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ آئندہ سماعت پر دلائل دیں یا متبال وکیل کا بندوبست کریں۔

حکمنامے میں ہے کہ ایم کیو ایم کے ایڈووکیٹ کے ریکارڈ کے مطابق ان کا موکل سے رابطہ نہ ہو سکا۔ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو ایم کیو ایم سے رابطہ کرنے کی مہلت دی جاتی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اعجاز الحق کے وکیل نے خفیہ ادارے کی رپورٹ پر اعتراضات اٹھایا، وکیل اعجاز الحق نے نئی ہدایات و بیان حلفی جمع کرانے کیلئے مہلت مانگی۔ جب کہ الیکشن کمیشن نے نظر ثانی واپس لینے کی استدعا کی۔ کیا الیکشن کمیشن و دیگر اداروں نے آزادانہ طور پر نظرثانی دائر کی۔ کیا الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل در آمد کردیا ہے۔

حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے جس کے پاس بھی معلومات ہوں سامنے لائے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق نظرثانی کیس میں معاملے کو مزید نہ پھیلایا جائے۔ بعض لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ ان کا موقف سنا ہی نہیں گیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں فیض آباد ٹی ایل پی کے دھرنے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں سخت آبزرویشن دی تھیں۔

مزیدخبریں