آرٹیکل 63 کا کیس حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت دلوا سکتا ہے؟

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کے برخلاف کوئی فیصلہ دیں گے۔ جب پارٹی ممبران کو یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکیں تو آئینی عدالت بنانے کی کوشش میں موجودہ حکومت کامیاب ہو جائے گی۔

01:59 PM, 2 Oct, 2024

عبدالغفار بگٹی

آج کل پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 63 اور 63 اے میں شامل شقوں کے حوالے سے سیاسی ہنگامہ آرائی اپنے عروج پر ہے۔ مزید یہ کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بنائے گئے عدالتی بینچ پر کئی سیاسی دھڑوں کی تنقید جاری ہے۔ ان کی حقیقت جاننے کے لئے ہمیں ان قانونی شقوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 63 اور 63 اے میں فرق صرف اتنا ہے کہ 63 اے میں پارٹی کے ساتھ مخلص ہونے پر زور دیا گیا اور 63 میں ممبر قوم اسمبلی کے باقی معاملات پر نظرثانی کرنے کی بات ہو رہی ہے جس میں اس کے شخصی قول و فعل شامل ہیں کہ اگر ممبر قومی اسمبلی آئین میں شامل معاشرتی حصولوں کے خلاف جاتے ہیں تو کس طرح ان کی ممبرشپ برخاست ہو سکتی ہے۔

آرٹیکل 63 میں قومی اسمبلی کے ممبر کی نااہلی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کن کن چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی ممبر کو نااہل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک اہم نقطہ جو اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے وہ یہ ہے کہ رکن پارٹی لیڈر کی اجازت کے بغیر اسمبلی میں ووٹ ڈالے۔ وہ چاہے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی سیٹ کے حق یا خلاف ہو، معاش کے حوالے سے کوئی ترمیم ہو یا پھر دوسرا قانونی بل ہو۔ اگر رکن لیڈر کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالے تو پارٹی لیڈر یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ اس کی ممبرشپ کو ختم کر دے۔ مگر اس سے پہلے اس کو اس رکن قومی اسمبلی کے نام شو کاز نوٹس جاری کرنا پڑے گا اور اس میں اس سے وضاحت طلب ہو گی۔ اور پھر اس کے بعد سپیکر کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دائر کی جائے گی۔ اور الیکشن کمیشن 30 دن کے اندر اس کے خلاف ایکشن لینے کا پابند ہو گا۔ اور اس کی اسمبلی کی ممبرشپ کو ختم اور اس کی نشست کو خالی کر کے دوبارہ الیکشن کرایا جائے گا۔

مگر اس میں ایک اہم نقطہ یہ بھی سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمان کے معاملے میں ممبرز اسمبلی پارلیمانی لیڈر کا فیصلہ مانیں گے، پارٹی لیڈر کا نہیں۔ عمران خان جو کہ بانی اور سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ہیں لیکن رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں، اب اگر وہ پارٹی ممبران کو اسمبلی میں آنے والے کسی ترمیمی بل کے حق یا خلاف فیصلہ دینے کا حکم دیں تو ضروری نہیں کہ ان کی بات کے برخلاف جانے والے اسمبلی ممبر کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ اس لئے تمام ارکان پارلیمانی لیڈر بیرسٹر گوہر کے حکم کے تابع ہوں گے۔ اس کی مثال ہمیں پنجاب میں بننے والی حمزہ شہباز کی حکومت سے ملتی ہے جسے بعد میں عدالتی فیصلہ نے ختم کر دیا تھا۔ جس میں ق لیگ کے اسمبلی میں بیٹھے لوگوں سے چوہدری شجاعت کے حکم پر حمزہ کے حق میں ووٹ ڈلوایا گیا تھا۔ چوہدری شجاعت ق لیگ کا پارٹی لیڈر تھا نا کہ پارلیمانی لیڈر۔

آرٹیکل 63 آئین میں 2010 میں شامل ہوا تھا اور پھر اس میں ترامیم 2017 میں ہوئیں۔ اس کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ کسی طرح 'ہارس ٹریڈنگ' اور 'فلور کراسنگ' کو روکا جا سکے۔

یہ معاملہ 2022 میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ میں لایا گیا جب صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی جس پر 3/2 سے سپریم کورٹ کے بینچ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ سپریم کورٹ بار نے سپریم کورٹ کے مئی 2022 کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی اور یہ کیس آج پھر زیر سماعت ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کے برخلاف کوئی فیصلہ دیں گے۔ جب پارٹی ممبران کو یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ اپنی مرضی کے بندے کو ووٹ ڈال سکیں تو آئینی عدالت بنانے کی کوشش میں موجودہ حکومت کامیاب ہو سکے گی۔ کیونکہ حکومت کو آئینی عدالت والے قانون کو اسمبلی سے پاس کروانے کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے ممبران کو کسی طور اپنے ساتھ شامل کرنا ہو گا اور آئینی عدالت کے قیام کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سروس کو مزید جاری رکھنے کی پیشن گوئی ہو رہی ہیں جس کو لے کر ملک بھر سے سیاسی اور قانونی تجزیہ نگار بات کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے مزید یہ کہ پیپلزپارٹی نے اس نظرثانی اپیل کی حمایت کر دی ہے۔ کیس میں نئے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جسٹس منیب اختر کی جانب سے معذرت کرنے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا گیا تھا مگر انہوں نے بینچ میں شمولیت سے انکار کیا۔ اس وجہ سے جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کیا گیا۔

آئین کے اس آرٹیکل کو آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اسمبلی اور سینیٹ برخاست کر سکتی ہیں جو کہ آرٹیکل 238 اور 239 نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو حق دے رکھا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جوڈیشل ریویو کے ذریعے اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تحت عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ اگر یہ قانون بنیادی قوانین کے خلاف ہے تو وہ اس کو ختم کر سکتی ہے۔ اور اس کے بعد سپریم کورٹ سٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعے پبلک انٹرسٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آرٹیکل کو ختم کر سکتی ہے۔

مزیدخبریں