یہ سننے میں حیران کن ہے تاہم حقیقت یہی ہے کہ سلوا حسین کے جسم کو دل کی طرح خون کی ترسیل کرنے والا ایک آلہ ہے جو انکی کمر سے جڑا ہے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ سلوا اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں کہ اچانک چند سال قبل انہیں دل کی ایک بیماری کی تشخیص ہوئی جس میں دل کے پٹھوں کے غیر فعال ہونے سے دل بتدریج کام کرنا چھوڑ جاتا ہے اور آخر میں مریض کی حکرمت قلب بند ہونے سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ سلوا ایک سپشل کیس تھیں کیونکہ انکو جو بیماری تھی اس کیوجہ جینیاتی تھی اور یہ لاکھوں میں کسی ایک کو ہوا کرتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹرز نےمیرا بہت علاج کیا۔ مرض کی بہت سی وجوہات تلاش کیں اور علاج بھی لیکن سب مایوس ہوگئے۔ میں خود سے اور زندگی سے مایوس ہوگئی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ اب کچھ باقی نہیں رہا۔ زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کےساتھ میرے ہاتھوں سے پھسل رہی تھی اور میں بے بس تھی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا کہ سلوا کو انگلینڈ کے علاقے کلے ہال کے ہیر فیلڈ ہسپتال کی سرجن ڈیانا گارسیا سائیز ملیں جنہوں نے ابتدا فیصلہ کیا کہ انکے دل کے مخصوص حصے کا ٹرانسپلانٹ کر دیا جائے۔ انہوں نے ایسا کیا لیکن سلوا کی حالت مزید بگڑنے لگی۔
سرجن ڈاکٹر ڈیانا گارسیا کہتی ہیں کہ سلوا کی حالت تو بہت ہی تیزی سے خراب ہوئی۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ سلوا کی زندگی سے متعلق سب سے بڑا فیصلہ ڈاکٹر ڈیانا کو لینا تھا اور سلوا کوان پراعتماد کرنا تھا۔ یہی ہوا اور ڈاکٹر ڈیانا نے ایک مصنوعی پمپ سلوا کے جسم کے باہر ہی نصب کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لئے ایک نازک اور خطر ناک ترین آپریشن کرنا لازم ٹھہرا۔ سلوا کہتی ہیں کہ آپریشن تھیٹر جانے سے قبل وہ اپنی بہنوں کےگلے لگ کر خوب روئیں۔ انہیں آخری نصحیتیں اور مختلف معاملات پر وصیت کی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں سوچ رہی تھی کہ اب سب ختم ہوجائے گا۔
لیکن آپریشن ہوا اور کامیاب ہوا۔ سلوا کو ہوش آیا تو انہیں بتایا گیا کہ انکے سینے میں شاید اب انہیں دھڑکن کی کمی محسوس ہو کیونکہ اب وہاں دل نہیں ہے۔ جس پر ہو حیران ہوئیں اور پریشان بھی۔ تاہم آہستہ آہستہ انہوں نےزندگی کی نئی حقیقت کو اپنا لیا ہے۔ اب وہ خوش ہیں کہ وہ ایک نئی زندگی جی رہی ہیں جس کا انتظام کرنے کے لئے بہترین انسانی ذہانت کام آئی ہے۔
یاد رہے کہ سلوا کا یہ آپریشن کارڈیالوجی کے شعبہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا ہے جد نے دل کے آپریشنز کو ایک نئی جہت بخشی ہے۔