گجر پورہ واقعے میں گرفتار فیکٹری مالک ندیم کا پولیس کو دیا گیا بیان سامنے آ گیا ہے۔
ملزم ندیم نے پولیس کو بتایا کہ میرے کزن عرفان کے ہاں بیٹے کی پیدائش پر جشن منانے کا منصوبہ بنایا تھا، پارٹی کے لیے عرفان نے دیگر 5 دوستوں کو بھی فیکٹری بلایا تھا۔
گرفتار فیکٹری مالک کے مطابق پارٹی کے لیے دونوں لڑکیوں کو شاہدرہ سے لایا گیا تھا، دونوں لڑکیوں کو ڈانس کے لیے 15 ہزار روپے میں بک کیا گیا تھا۔
دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ لڑکیوں کو رات 2 بجے واپس چھوڑنا تھا لیکن صبح 7 بجے گھر پہنچایا، پیسوں کے معاملے پر جھگڑا ہو گیا تو لڑکیوں نے زیادتی کا الزام لگا دیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے علاقے گجر پورہ کی ایک فیکٹری میں دو لڑکیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے بعد پولیس نے فیکٹری مالک ندیم کو حراست میں لیکر تفتیش شروع کر دی تھی۔
پولیس کے مطابق 3ملزمان نے لڑکیوں کو شاہدرہ سے اغوا کیا اور گجرپورہ لائے جہاں انہوں نے کرول کھاٹی میں واقع فیکٹری میں لے جا کر دونوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔
پولیس ذرائع کے مطابق زیادتی کے بعد ملزمان موقع سے فرار ہوگئے تاہم فیکٹری کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لاہور میں زیادتی کے ایک کے بعد ایک واقعے نے پنجاب پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔یاد رہے کہ جنسی زیادتی کا لاہور میں یہ چند ہفتوں میں ہونے والا تیسرا واقعہ ہے۔
22 اگست چوہنگ لاہور میں ماں بیٹی کے ساتھ زیادتی
پولیس کے مطابق زیادتی کی شکار 15 سالہ لڑکی حافظ قرآن جبکہ ماں دل کی مریضہ ہے۔ ماں بیٹی سے زیادتی کا واقعہ 22 اگست کی رات پیش آیا تھا۔ ارشاد بی بی اور ارم میلسی سے لاہور آئی تھیں۔ زیادتی کا شکار ماں بیٹی کی میڈیکل رپورٹ آ گئی۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق دونوں خواتین کیساتھ بداخلاقی ہوئی۔ ملزمان نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔ متاثرہ خواتین کی ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سے ملاقات، ڈی آئی جی کی متاثرہ خواتین کو مکمل انصاف کی یقین دہانی کہا کہ ملزمان کو ہر صورت سزا دلوائیں گے۔
14 اگست اور سانحہ مینار پاکستان
پاکستان کے یوم آزادی، 14 اگست کے روز لاہور گریٹر اقبال پارک میں ٹک ٹاک سٹار عائشہ اکرم کو سیکڑوں افراد کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنانے اور پولیس کی جانب سے بروقت کارروائی نہ کرنے کا افسوس ناک واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب تین روزبعد سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوتی ہے، اس واقعے کی وائرل ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے تین سے چار سو افراد پر مشتمل ایک ہجوم لڑکی پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسے ہراساں کرتا ہے۔ متاثرہ لڑکی کو مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے بھی دیکھا اور سْنا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے کہ آیا ملک کے بڑے شہروں میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ لاہور پولیس نے مقدمے کے اندراج اور اس میں ’سخت دفعات‘ کا اضافہ کر کے تحقیقات شروع کی ہیں۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس میں ویڈیو کلپس کے سہارے ملزمان تک پہنچیں گے۔ ترجمان پنجاب حکومت فیاض الحسن چوہان نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملزمان کی کچھ تصاویر شیئر کیں تھیں اور لکھا تھا کہ گریٹر اقبال پارک واقعے میں ملوث ان کرداروں کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دے دی گئی ہے۔ پولیس حکام نادرا اور پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے سائنٹفک طریقے سے ان سمیت تمام افراد کو ٹریس کر رہے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے اس واقعہ پر نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہو ساجد کیانی کو او ایس ڈی، جبکہ ایس ایس پی آپریشنز لاہور سید ندیم عباس اور ایس پی سٹی حسن جہانگیر وٹو کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور رسپانس میں تاخیر اور فرائض سے غفلت برتنے پر ڈی ایس پی بادامی باغ عثمان گجر اور ایس ایچ او تھانہ لاری اڈہ کو معطل کر دیا گیا ہے۔ فرائض سے غفلت برتنے پر گریٹر اقبال پارک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر علی نواز شاہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ ابرارکو بھی معطل کیاگیا ہے۔ جبکہ پارک کے سکیورٹی انچارج محمد ضمیر کو او ایس ڈی بنا کر صدر دفتر رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس واقعہ میں ایمرجنسی پولیس سے بار بار مدد مانگنے کے باوجود جہاں پولیس نے مدد نہ کرکے نہ انصافی کی ہے وہاں گریٹر اقبال پارک میں پی ایچ اے کی ناقص سیکورٹی اور اہلکاروں کی، مبینہ غفلت سامنے آئی ہے۔