وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے آج اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے چمن بارڈر آج سے کچھ دنوں یا کچھ دیر کے لیے بند کیا جا سکتا ہے۔
چمن بارڈر پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں بیس ہزار کے لگ بھگ افغان مہاجرین پاکستان پہنچ چکے ہیں اور اس وقت بارڈر پر افغانستان کی طرف ہزاروں افغان شہری موجود ہے۔
چمن انتظامیہ کے ایک سرکاری اہلکار کے مطابق حکومت پاکستان نے ایک پالیسی بنائی ہے جس کے مطابق صرف ضلع چمن کا قومی شناختی کارڈ رکھنے والے افراد اسپین بولدک تک سفر کرسکتے ہیں اور افغانستان میں صرف قندھار اور اسپین بولدک کے رہائشی بارڈر تک سفر کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ان دو اضلاع کے باسیوں علاوہ کوئی کسی دوسرے ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ سیکیورٹی اہلکار کے مطابق اسپین بولدک بارڈر پر نہ صرف گاڑیوں کے کرایوں میں سو گنا اضافہ ہوا بلکہ اشیاء ضروریہ بھی دوگنی قیمت پر فروخت ہورہی ہیں اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
بلوچستان کے ضلع چمن سے تعلق رکھنے والے فری لانس صحافی عبدالرزاق برق نے نیا دور کو ٹیلی فون پر بتایا کہ اس وقت اسپین بولدک بارڈر کے دونوں اطراف پر انسانوں کا جم غفیر ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن میں خواتین، بچے اور بزرگ افراد شامل ہیں۔
صحافی برق نے تصدیق کی کہ مخصوص اضلاع کے رہائشی بارڈر تک سفر کرسکتے ہیں۔ صحافی عبدالرزاق برق نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک روز میں بیس ہزار سے زائد افغان مہاجرین پاکستان داخل ہوئے اور ان میں زیادہ تر لوگ غیر قانونی طریقوں سے ایجنٹوں کے زریعے مختلف راستوں سے بلوچستان پہنچے تھے۔ صحافی برق نے تصدیق کی کہ بلوچستان میں ایجنٹ اور دیگر سرکاری اہلکار رشوت لیکر لوگوں کو پاکستان لارہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بارڈر پر ایسی صورتحال ہے کہ کبھی والدین بارڈر کراس کرلیتے ہیں اور بچے بارڈر کے اس پار رہ جاتے ہیں اور کبھی بچے بارڈر کراس کرکے پاکستان داخل ہوجاتے ہیں اور والدین رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے بارڈر کی صورتحال کو درد ناک قرار دیا۔
چمن میں تعینات ایک سیکورٹی اہلکار نے تصدیق کی کہ گزشتہ تین روز میں بارڈر پر کئی بچے گمشدہ ہیں۔ اور مسلسل کوششوں کے باوجود تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ انھوں نے مزید کہا کہ انسانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ انتظامات بہت کمزور ہیں۔ اس لئے حالات کنٹرول سے باہر ہیں۔ بلوچستان حکومت نے کچھ روز کے لئے بارڈر بند کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ حالات کو قابو کیا جاسکے۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ اور بلوچستان حکومت کے ترجمان نے اس حوالے سے کوئی موقف نہیں دیا۔