پاکستانی قوم محدود وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بھی جلد اس وبا سے جان چھڑوا لے گی، مگر کیسے؟

04:39 PM, 3 Apr, 2020

مرزا عامر جرال
تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو دنیا میں انہیں قوموں نے مشکلات کا مقابلہ کیا ہے جو مشکل حالات میں گھبرائی نہیں۔ اس وقت دیکھا جائے تو دنیا کو ایک عالمی وبا کا سامنا ہے۔ اب تک 206 ممالک کے 10 لاکھ سے زائد لوگ اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ 50 ہزار اموات ہوئی ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی کرونا وائرس کی وبا پھیل رہی ہے۔ 3 اپریل کی تاریخ تک پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 24 سو سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 32 افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث نافذ لاک ڈاؤن نے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو متاثر کیا ہے۔ حکومتی تخمینے کے مطابق پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد 1 کروڑ پچاسی لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ معاشی طور پر پاکستان کو تقریباً 25 سو ارب کا نقصان ہوگا۔

ان حالات میں جہاں ملک کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوئے، وہاں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے عام مزدور اور معمولی کاروبار کرنے والے حضرات کیلئے دو وقت کا کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ اس پس منظر میں جو خوش آئند عمل دکھائی دیتا ہے وہ معاشی مسائل اور مشکلات کا شکار ہم وطنوں کی مدد کا جذبہ ہے۔ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمھجنا اور اپنی تکلیف بھول کر دوسروں کی پریشانی دور کرنے کیلئے بے قرار ہو جانا، یہی وہ احساس ہے جو کسی بھی قوم کو عروج بخشتا ہے، جو حالات کو ابتری سے نکال کر بہتری کی جانب گامزن کر دیتا ہے، وہ جذبہ جو قوم کو بلا تفریق رنگ و نسل باہم یک جاں کر دیتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں بے شمار فلاحی تنظیمیں مدد کے جذبے سےسرشار غریب اور بے سہارا خاندانوں میں راشن تقسیم کر رہی ہیں اور طبی سہولیات مہیا کر رہی ہیں۔ ان میں سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ، جو مولانا بشیر احمد کی سربراہی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس ٹرسٹ کے 2000 کارکن روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 1 لاکھ 75 ہزار افراد کی مدد کرتے ہیں۔ اس ٹرسٹ کے سربراہ نے موجودہ حالات میں 2 ارب کے پیکج کا اعلان کیا ہے جس سے20 لاکھ غریب خاندانوں میں راشن تقسیم کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح جماعت اسلامی کی غیر سرکاری تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کے کارکنان مفت راشن اور کھانا تقسیم کر رہے ہیں۔ بیت الاسلام ویلفیئر ٹرسٹ نے بڑے شہروں میں سٹورز قائم کر رکھے ہیں، جہاں غریبوں کو سستے داموں راشن مہیا کیا جا رہا ہے۔ کیئر پاکستان ویلفیئر کے تحت گھر گھر جا کر راشن پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے1951 سے پاکستان میں طبی سہولیات اور غریبوں کی مدد کا منظم نظام قائم کیا ہوا ہے، جو ہر مشکل میں دکھی انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔ اس وقت بھی ایدھی فاؤنڈیشن صحت عامہ کے شعبے میں مریضوں کے لئے 24 گھنٹے ایمرجنسی سروس اور دیگر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے علاوہ مقامی سطح پر بے شمار افراد اور فلاحی تنظیمیں غریبوں اور بےروزگار خاندانوں کیلئے امدادی کام کر رہی ہیں۔

یاد رہے کہ یہ تمام فلاحی تنظیمیں اور ان کے سربراہان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو ان کے پاس بڑے پروفیشنل ادارے موجود ہیں، ان کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں ہے۔ بہترین ریسکیو ٹیمیں موجود ہیں جو ہر وقت کام کرتی ہیں۔ جدید مشینری اور جدید ٹیکنالوجی ان کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ اس کے بر عکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں حالات بالکل مختلف ہیں۔ یہاں نا تو وہ تمام وسائل موجود ہیں نا ہی اتنی جدید مشینری اور جدید ٹیکنالوجی ہے لیکن پاکستان کے پاس ایک ایسی قوم ہے جو جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایثار سے سرشار ہے، جس نے ہر مشکل وقت میں، ہر آفت میں دوسروں کو خود پر ترجیح دی ہے۔

ماضی کی بات کریں تو وہ 2005 کا زلزلہ ہو یا 2007 شمالی پنجاب کا سیلاب ہو۔ 2008 میں بلوچستان کا زلزلہ ہو یا 2009 سے 2014 تک بدامنی اور جنگ سے بے گھر افراد کا سانحہ ہو یا 2010 میں آنے والا سیلاب ہو یا تھر پارکر کی قحط سالی۔ ہر بار ایسے حالات میں ساری قوم نے ایک ہو کر دل و جاں سے اس ملک کے لوگوں کی خدمت کی۔

ان میں صحافتی تنظیمیں، پاکستانی افواج اور موجودہ حالات میں ڈاکٹروں اور پیرامیڑیکل سٹاف کا ذکر خارج از امکاں نہیں ہے۔ جنہوں نے ہر مشکل گھڑی اور نامساعد حالات میں جذبہ ایمانی اور جذبہ حب الوطنی کے تحت قوم کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس وقت ہر فرد ایک دوسرے کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم کی جانب سے بنائے گئے کرونا ریلیف فنڈ میں ایک مشہور صنعتکار حسین داؤد نے ایک ارب روپے دینے کا اعلان کیا ہے، جو جذبہ ایثار کی بہترین مثال ہے۔

ان تمام حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی قوم موجودہ نامساعد حالات میں محدود وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بھی اسی جذبہ ایمانی سے ان ترقی یافتہ ممالک کی نسبت جلد اس وبا سے جان چھڑوا لے گی اور یہی خوشی کی بات ہے۔
مزیدخبریں