ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی سربراہی میں اسمبلی ہونے والے ہنگامہ خیز اجلاس میں وزیر قانون فواد چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 7 مارچ کو ایک میٹنگ ہوتی ہے اور اس کے ایک روز بعد 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارے سفیر کو 7 مارچ کو ایک میٹنگ میں طلب کیا جاتا ہے، اس میں دوسرے ممالک کے حکام بھی بیٹھتے ہیں، ہمار ےسفیر کو بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاری ہے، اس وقت تک پاکستان میں بھی کسی کو پتہ نہیں تھا کہ تحریک عدم اعتماد آ رہی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے ہمارے تعلقات کا دارومدار اس عدم اعتماد کی کامیابی پر ہے، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کر دیا جائے گا لیکن اگر اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو آپ کا اگلا راستہ بہت سخت ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر ملکی حکومت کی جانب سے حکومت کی تبدیلی کی بہت ہی متاثر کوشش ہے، بدقسمتی سے اس کے ساتھ ہی اتحادیوں اور ہمارے 22 لوگوں کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور معاملات یہاں تک آ پہنچتے ہیں۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کیا یہ 22 کروڑ لوگوں کی قوم اتنی نحیف و نزار ہے کہ باہر کی طاقتیں یہاں پر حکومتیں بدل دیں، ہمیں بتایا جائے کہ کیا بیرونی طاقتوں کی مدد سے حکومت تبدیل کی جا سکتی ہے، کیا یہ آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے عوام کتھ پتلیاں ہیں؟ کیا ہم پاکستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ کیا ہم غلام ہیں؟ کیا اپوزیشن لیڈر کے بقول ہم بھکاری ہیں؟
فواد چوہدری کا کہنا تھا اگر ہم غیر مند قوم ہیں تو یہ تماشہ نہیں چل سکتا اور اس پر رولنگ آنی چاہیے۔
اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان پیدل چل کر پارلیمنٹ لاجز پہنچے جب کہ منحرف ارکان بھی اپوزیشن کی لابی میں پہنچے۔
سابق صدر آصف زرداری، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی میں موجودد ہیں۔
وفاقی وزیر کے اظہار خیال کے بعد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت کسی بھی غٖیر ملکی طاقت کے کہنے پر حکومت تبدیل نہیں کی جا سکتی لہذا اپوزیشن کی 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو آئین سے انحراف قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا جاتا ہے اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاتا ہے۔