سینئر صحافی اعزاز سید نے یوٹیوب چینل پر وی-لاگ میں صحافی عمر چیمہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اکتوبر 2022 میں نادرا کے کوہلو آفس کے ایک جونیئر ڈیٹا انٹری آپریٹر فاروق احمد نے مبینہ طور پر اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی اہلیہ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر کے ان کے خاندان کے پاسپورٹ کی تفصیلات اور شناختی کارڈ نمبر اکٹھے کئے۔ بعد ازاں جنرل عاصم منیر کے خاندان کا ڈیٹا فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) کے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم (آئی بی ایم ایس) میں داخل کیا گیا تاکہ ان کےخاندان کے بین الاقوامی سفری مقامات کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس وقت پاک فوج کے پانچ سینئر لیفٹیننٹ جنرلز آرمی چیف کے عہدے کے لیے امیدوار تھے۔
اعزاز سید کے مطابق اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ سید عاصم منیر، اس وقت کے ایک سینئر لیفٹیننٹ جنرل، یا ان کے خاندان نے ایران کا سفر کیا تھا اور وہ 'شیعہ' ہو چکے ہیں۔
مبینہ طور پر اس طرح کے الزامات پاکستان کے قریبی اتحادی سعودی عرب کی نظروں میں اعلیٰ فوجی افسر کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جانے تھے۔ اعزاز سید نے اس تمام معاملے کا تعلق سعودی دفاعی اتاشی کو بعض معلومات کے 'لیک کرنے' سے جوڑا، جس کو واپس ریاض منتقل کر دیا گیا تھا۔
اعزاز سید نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جنرل عاصم منیر پہلے بھی سعودی عرب میں خدمات انجام دے چکے تھے اس لیے سعودی حکومت نے ان معلومات پر شدیدحیرانی کا اظہار کیا۔ مزید برآں، جنرل عاصم کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ وہ 'فرقہ وارانہ ذہنیت' نہیں رکھتے ۔ لیکن یہ ساری سازش "آرمی چیف کی تقرری کو روکنے کے لیے تیار کی گئی جس کے تحت سعودی عرب کو غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ اس کے بعد سعودی حکومت نے وزیر اعظم شہباز شریف سے رابطہ کیا۔جنہوں نے اپنے سسٹم سے ان معلومات کو چیک کیا۔ تمام تفصیلات کی تصدیق کے بعد ایک نئی رپورٹ تیار کی گئی، اور سعودی حکومت کو بتایا گیا کہاس سے قبل دفاعی اتاشی کی طرف سے دی گئی معلومات غلط ہیں۔
اعزاز سید کا کہنا ہے کہ نومبر 2022 کے آخر میں جنرل سید عاصم منیر کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تعیناتی میں تاخیر کی اصل وجہ ان جھوٹی رپورٹس سے پیدا ہونے والی بدگمانیاں تھیں۔
اس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی حکومت کے ساتھ اتنی سنگین نوعیت کی جھوٹی رپورٹس شیئر کرنے کے پیچھے سازش کو بےنقاب کرنے کے لیےتحقیقات کا آغاز کیا۔ چونکہ اس مذموم اقدام کے لیے نادرا اہلکاروں کا استعمال کیا گیا۔اس لیے نادرا کے چھ افسران فاروق احمد (جونیئر ایگزیکٹو)، رحمان بٹ (ڈپٹی ڈائریکٹر)، رشید احمد (اسسٹنٹ ڈائریکٹر)، سیف اللہ (ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر)، ساجدسرور (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ) اور محمد علی (ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر) کے خلاف انکوائری شروع کی گئی۔ ساجد سرور (اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ) اور محمد علی (ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر) کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا۔
اعزاز سید کے مطابق ان جونیئر اہلکاروں نے ثبوت پیش کیے کہ انہیں ان کے اعلیٰ افسران نے متعلقہ ڈیٹا پر مشتمل رپورٹس بنانے کا حکم دیا تھا۔ اور یہ ممکن تھا کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ نادرا کے ڈیٹا بیس سے کس کا ڈیٹا حاصل کر رہے ہیں اور کیوں۔ واضح رہے کہ نادرا نے انکوائری کے آغاز پر 14 دسمبر کو ان 6 جونیئر اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا اور تاحال انہیں ان کے عہدوں پر بحال نہیں کیا گیا۔
انکوائری کے دوران، نادرا کے دو سینئر افسران، خالد عنایت اللہ (ڈائریکٹر جنرل) اور امیر بخاری (ڈائریکٹر) کے نام سامنے آئے جو آرمی چیف اور ان کے اہلخانہ کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی کے پیچھے تھے۔ دونوں افسران نے مبینہ طور پر ان سینئر جرنیلوں کے قریبی رشتہ داروں کا نام لیا جو اکتوبر 2022 میں آرمی چیف کے عہدے کے امیدوار بھی تھے۔ ان قریبی رشتہ داروں کی جانب سے اس ڈیٹا کی درخواست کی گئی تھی۔
اعزاز سید نے کہا کہ نادرا کے دونوں افسران انکوائری میں تعاون کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ان کے پاس اس ڈیٹا کی درخواست کرنے آئے تھے، انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں ایسا کیا۔
ابتدائی طور پر نادرا کی ڈیٹا لیک کی انکوائری بریگیڈیئر (ر) خالد لطیف کی زیر نگرانی تھی تاہم بعد میں علم ہوا کہ وہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے قریبی ساتھی اور معتمد تھے، جو اس وقت آرمی چیف کے امیدواروں میں سے ایک تھے۔ اس لیے خالد لطیف کو ہٹا کر یہ ذمہ داری سینئر افسر علی جاوید کےسپرد کر دی گئی جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ راست باز اور ایماندار انسان ہیں۔
بتایا کیا ہے کہ خالدلطیف اور تین دیگر فوجی اہلکاروں کو حال ہی میں انکوائری اور ممکنہ سزا سے بچنے کے لیے مستعفی ہونے کا موقع دیا گیا تھا جس کے بعد لطیف نے پاکستانی فوج کے بریگیڈیئر کی حیثیت سے اپنے کمیشن سے استعفیٰ دے دیا۔لیکن ان کی سرگرمیوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جا رہی ہے جس سے لگتا ہے کہ ان کے سابق سرپرست فیض حمید کو فائدہ پہنچا ہے۔
پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ایجنسی کے سابق سربراہ اور سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر بڑے پیمانے پر شبہ ہے کہ انہوں نے انٹیلی جنس، ملٹری، بیوروکریسی اور یہاں تک کہ عدالتی اداروں میں اچھے عہدے داروں کے نیٹ ورک کو ترتیب دیا ہے تاکہ ان سے کام نکلوایا جاسکے۔ جو رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق یہ نیٹ ورک اس وقت بھی کام کر رہا تھا جب فیض حمید انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نہیں تھے۔ اس نیٹ ورک نے مبینہ طور پر ممکنہ آرمی چیف کے طور پر ان کی امیدواری کا نعرہ اس وقت لگایا جب وہ بہاولپور میں کور کمانڈر تھے۔ مبینہ طور پر یہ نیٹ ورک فیض حمید کے فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی فعال ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید آرمی چیف کے عہدے کے لیے سابق وزیر اعظم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے پسندیدہ امیدوار تھے۔ فیض حمید نے گزشتہ سال فوج سے جلد ریٹائرمنٹ کی درخواست کی تھی جسے بڑی سرعت سے منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ان پر آمدن سے زائد دولت جمع کرنے کا الزام ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے فیض حمید پر فوج کے ضابطوں کے تحت مقدمہ چلانے اور کورٹ مارشل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اعزاز سید کے مطابق جاری انکوائری سے توقع ہے کہ نادرا اور دیگر جگہوں پر ایسے چہرے بے نقاب ہوں گےجو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف اس سازش میں شامل ہیں۔ تاہم ان افسران کو یہ غیر قانونی سرگرمیاں کرنے پر اکساتے یا مجبور کرنے کے پیچھے جو اصل ’ماسٹر مائنڈز‘ہیں انہیں کبھی بھی عوامی سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اعزاز سید کے مطابق اب تک کی انکوائری میں سابق چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس) لیفٹیننٹ جنرل (ر) اظہر عباس اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے نام سامنے آئے ہیں۔
نادرا کے ایک اعلیٰ افسرنے تصدیق کی ہے کہ جنرل عاصم منیر کے اہل خانہ سے وابستہ تفصیلات لیک ہونے کے حوالے سے انکوائری ہو رہی ہے تاہم جاری تحقیقات کی حساس نوعیت کا حوالہ دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔