افتخار چودھری جب واپس آئے تو انہوں نے عوام کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے پاپولزم کی بنیاد پر فیصلے سنانے شروع کر دیے۔ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے احتساب اور انصاف کی جلد فراہمی جیسے توجہ طلب معاملات کو پس پشت ڈال دیا۔ 2013 میں افتخار چودھری کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی عدالتی پاپولزم ختم نہیں ہوا۔ درحقیقت یہ مزید گہرا ہو گیا۔ خاص طور پر 2016 سے 2019 کے عرصے کے دوران جب جسٹس ثاقب نثار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔
مصنف ڈاکٹر یاسر قریشی عدالتی پاپولزم سے متعلق لکھتے ہیں: 'پاپولسٹ جج عدالتی ایکٹوازم کی ایک زیادہ جارحانہ شکل میں نمودار ہوتے ہیں، جو نہ صرف پالیسی کو نظیر پر ترجیح دیتے ہیں بلکہ نتائج کو عمل پر بھی فوقیت دیتے ہیں۔ پاپولسٹ جج نظیر اور طریقہ کار کا پابند نہیں ہوتا، جج کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا، اس سے متعلق ہر آئینی حدود کی تشریح کرتا ہے'۔
موجودہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو پاپولسٹ جج کہا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر یاسر سمجھتے ہیں کہ جوڈیشل پاپولزم 'عدالتی ایکٹوازم کی ایک جارحانہ شکل' ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ عدالتی ایکٹوازم اور عدالتی پاپولزم عدالتی تبدیلی کی ایک ہی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں، عدالتی ایکٹوازم کچھ زیادہ قابل قبول اور کم نقصان دہ ہے؟ اور جسٹس بندیال حقیقت میں کس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں؟
'جج قانون کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں، رائے عامہ پر نہیں'۔ یہ امریکہ کے سابق چیف جسٹس وارن ای برگر کا مشہور قول ہے جو 1969 سے 1986 تک امریکہ کے چیف جسٹس رہے۔ انہوں نے اپنی کسی کتاب میں بھی عدالتی ایکٹوازم یا عدالتی پاپولزم کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے ان دونوں تصورات کو حال ہی میں مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
امریکی وکیل کینن ڈی کمیک لکھتے ہیں کہ جوڈیشل ایکٹوازم کی اصطلاح سب سے پہلے ایک امریکی تاریخ دان نے 1947 میں استعمال کی تھی۔ کمیک عدالتی ایکٹوازم کے پانچ بنیادی مفہوم بیان کرتے ہیں:
1) دیگر شاخوں کے قابل استدلال آئینی اقدامات کو غلط قرار دینا
2) نظیر پر عمل کرنے میں ناکامی دکھانا
3) عدالتی قانون سازی کرنا
4) قبول شدہ تشریحی طریقہ کار سے علیحدگی اختیار کرنا، اور
5) نتیجے کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ سنانا
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے ناقدین نے ان پر درج بالا پانچوں الزامات عائد کیے ہیں۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جسٹس بندیال عدالتی ایکٹوازم میں ملوث ہیں؟ اور اگر افتخار چودھری اور ثاقب نثار (اور کچھ حد تک جسٹس گلزار احمد بھی) پاپولسٹ جج تھے تو وہ جسٹس عمر عطاء بندیال سے کس لحاظ سے مختلف تھے؟
عدالتی ایکٹوازم سے متعلق بحث دہائیوں پرانی ہے لیکن بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ عدالتی ایکٹوازم کمزور پڑ چکی ہے اور اس نے خود کو عدالتی پاپولزم کے قریب تر پہنچا دیا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق عدالتی پاپولزم عدالتی بیان بازی کی طرح ہے اور بالکل اسی طرح ہے جس طرح سیاسی پاپولسٹ اسے استعمال کرتے ہیں۔ پاپولسٹ دو رخی بیان بازی کو استعمال میں لاتے ہیں جس کے مطابق زندگی کو اچھائی اور برائی کے مابین معرکے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لوگوں کو عام عوام اور اشرافیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بیش تر پاپولسٹ تکثریت کے مخالف ہوتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ محض وہی عوام کی درست نمائندگی کرتے ہیں۔ پاپولسٹ اپنے مخالفین کو شیطان قرار دیتے ہیں، اکثر انہیں دشمن، غدار، بد اور کرپٹ قرار دیتے ہیں۔
سیاسی پاپولزم کی بیان بازی کی طرح عدالتی پاپولسٹ بیان بازی بھی ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کرتی ہے جس میں عام لوگوں اور اشرافیہ کے مابین نہ ختم ہونے والا تصادم پایا جاتا ہے۔
2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پاکستان میں ویلنٹائنز ڈے کی تقریبات پر پابندی لگانے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی۔ انہوں نے فیصلہ سنایا کہ اس دن کو منانا 'غیر اسلامی' ہے۔ اس کے بعد پولیس کو یہ دن منانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن اس کے نتیجے میں گرفتار ہونے والوں میں سڑکوں پر پھول بیچنے والے غریب مرد، عورتیں اور بچے سرفہرست تھے۔ معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر اس وقت زندہ تھیں۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عدالت میں آنے کے بجائے دینی مدرسہ کھول لینا چاہئیے۔
اس سے پہلے بھی جسٹس صدیقی نے مختلف ویب سائٹس پر موجود 'توہین آمیز' مواد کے خلاف بیان دیا تھا۔ حکومت سے اسے ہٹانے کی اپیل کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ویب سائٹس پر جو کچھ دیکھا اسے پڑھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جوڈیشل پاپولزم کا مقصد بھی دوسروں کی توجہ مبذول کرانا اور جج کی شخصیت کے گرد مداحوں کا گروہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ 2012 میں حامد میر کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے علی احمد کرد نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا تھا کہ بیش تر سینیئر جج ایسے فیصلے سنا رہے ہیں تاکہ وہ شہ سرخیوں میں رہ سکیں۔ ان کا اشارہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی جانب تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک میں چند ہی سال قبل علی احمد کرد نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
عدالتی پاپولزم بھی مقبول عام رجحانات کا اظہار ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رجحانات عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں تاکہ عوام کے ساتھ یا کسی پاپولسٹ رہنما کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جا سکے۔ حال ہی میں پاکستان میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے بعض ججوں نے کہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے بہت مقبول سیاست دان ہیں۔
ان کی مقبولیت کا تصور بڑے پیمانے پر عمران خان کے حامیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا ہے اور پھر عمران خان کے حامی ٹی وی میزبانوں خاص طور پر یوٹیوب چینلز والے صحافیوں نے اس تصور کو پختہ کیا ہے۔ عمران خان کے بارے میں تخلیق کیے گئے اسی تاثر کا اثر بعض جج صاحبان بھی قبول کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان سے متعلق مقدموں میں نرمی دکھانے پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ان ججوں کو اندیشہ لاحق ہے کہ اگر وہ عمران خان کے ساتھ اس طرح کا نرم سلوک نہیں کریں گے تو عوام میں ان کی اپنی شبیہہ اور مقبولیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جن ملکوں میں پاپولسٹ حکومتیں قائم ہوتی ہیں یا جہاں پاپولسٹ لیڈر میڈیا پہ چھائے ہوتے ہیں وہاں کی عدالتوں کے عدالتی پاپولزم سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
افتخار چودھری ایک عوامی تحریک کی پیداوار تھے جس نے ایک ڈکٹیٹر کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا لیکن وہ اس تحریک کے پاپولسٹ دھارے کو اپنے ساتھ سپریم کورٹ میں لے گئے۔ آلو کی قیمتوں جیسے معمولی معاملات پر سوموٹو لینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو بھی متنازعہ طور پر برطرف کیا۔
ثاقب نثار کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایک سازش میں شامل کیا تاکہ پاپولسٹ لیڈر عمران خان کو کئی بے ضابطگیوں کے باوجود صادق اور امین قرار دلوا کر انہیں اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ حیرت کی بات نہیں کہ جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم فنڈ جیسے ناقابل عمل منصوبوں، ماتحت عدالتوں پر چھاپے مارنے اور کیمروں کے سامنے جونیئر ججوں کو ڈانٹ پلانے جیسے کاموں کے ذریعے خود کو مقبول بنانے کی مہم جاری رکھی۔
افتخار چودھری اور ثاقب نثار پاپولسٹ ججز تھے۔ جسٹس بندیال ایکٹوسٹ جج ہیں۔ تاہم جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جس انداز میں وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ میں توسیع پر لیے گئے ایک متنازع ازخود نوٹس کیس کی صدارت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ بھی جوڈیشل ایکٹوازم سے جوڈیشل پاپولزم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان کے بعض ساتھی ججوں نے ہھی ان کے انداز پر کھلے عام تنقید شروع کر دی ہے۔ تاہم عمران خان کے حامیوں اور صحافیوں نے انہیں ابھی سے 'جنگجو' کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔
جوڈیشل پاپولزم محض پاکستان ہی کا مسئلہ نہیں۔ ہم امریکہ، اسرائیل اور حال ہی میں برازیل میں بھی اس کی مثالیں دیکھ چکے ہیں۔ میڈیا میں جن رہنماؤں کو کرپٹ قرار دیا جاتا ہے عدالتیں بھی اپنے فیصلوں میں انہیں کرپٹ قرار دیتی ہیں تاکہ عدالتوں کو عوام میں مقبولیت حاصل ہو سکے۔ ترقی پذیر ممالک میں منتخب نمائندے جب آمنے سامنے آ جاتے ہیں تو غیر منتخب ریاستی اداروں کو دونوں کی طرف سے ثالثی کے لئے بلایا جاتا ہے۔ ماضی میں فوج واحد ثالث ہوا کرتی تھی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ اکثر جھگڑا کرنے والے فریقین کو پیچھے ہٹا کر خود ہی اقتدار میں آ جاتی تھی۔ افتخار چودھری کے زمانے سے ہی مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے سیاست دان عدلیہ ہی سے رجوع کرتے رہے ہیں۔ جس قدر اس رجحان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، انتظامیہ اور مقننہ کے لئے جگہ کم ہوتی جاتی ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جب عدلیہ یہ سمجھنے لگ جاتی ہے کہ وہ سیاست دانوں سے بھی بڑھ کر عوام کی امنگوں کی ترجمان اور ان کے حقوق کی محافظ بن چکی ہے۔
ندیم فاروق پراچہ کا طویل مضمون The Friday Times پہ شائع ہوا جس کے بعض حصوں کو نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔