سما ٹی وی سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر پرویز رشید نے جماعت کے فیصلے سے ہٹ کر ووٹ دینا تھا تو پھر وہ جماعت سے استعفا دیتے اور کسی ایسی جماعت میں چلے جاتے جہاں سے ان کو اپنی مرضی کے حساب سے ووٹ دینے کی آزادی ہوتی۔
اس سوال پر کہ خلائی مخلوق ان کے بیانیے کا حصہ تھا، شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ بیانیے کا حصہ نہیں ہے۔ خلائی مخلوق باہر سے آتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اسی ملک کی ہے۔ ’’وقت کے ساتھ یہ باتیں چلتی ہیں۔ لیکن خلائی مخلوق وہ ہوتی ہے جو باہر سے آتی ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ملک میں موجود ہے، تو وہ ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ معاملات میں مداخلت کرتی ہے، تو وہ بالکل کرتی ہے‘‘۔
اس سوال پر کہ انہوں نے پرویز رشید کو شوکاز نوٹس کیوں نہیں دیا، شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی جماعتیں ہر بات پر شوکاز جاری کرنا شروع ہو جائیں تو ہر روز جاری کیا جا سکتا ہے۔ میرے اس انٹرویو پر بھی جاری ہو سکتا ہے۔ آپ نے میری رائے پوچھی ہے، اس پر کہا ہے کہ اگر ان کو جماعت کے فیصلے سے اختلاف تھا، جماعت کہتی ہے کہ ووٹ دینا ہے، آپ کہتے ہیں کہ میں ووٹ نہیں دوں گا، تو اس عہدے تک آپ کو جماعت نے پہنچایا ہے۔ اصولی طریقہ یہی ہے کہ آپ استعفا دیں۔ یہ کڑوے گھونٹ بڑھنا پڑتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ گھونٹ کڑوا تھا، شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر آپ کو کسی فیصلے سے اتفاق نہیں، پھر بھی آپ کو ووٹ دینا پڑ رہا ہو تو وہ کڑوا گھونٹ ہی ہوتا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کے نزدیک وہ گھونٹ کڑوا تھا، سابق وزیر اعظم نے جواب دیا کہ جو فیصلہ جماعت نے کر دیا، اس کا پھر کوئی ذائقہ نہیں ہوتا۔
شاہد خاقان عباسی سے پوچھا گیا کہ عمران خان کتنے بااختیار وزیر اعظم ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ شوکت عزیز اور ظفر اللہ جمالی کے مقابلے میں زیادہ بااختیار وزیر اعظم ہیں۔ وہ اتنے بااختیار ہیں جتنے شودھری شجاعت حسین تھے۔ لیکن آئین کے تحت ان کے پاس وہ تمام اختیارات ہیں جو کسی بھی وزیر اعظم کے ہوتے ہیں۔