ملک کی سمت درست کرنے کے لیے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، شاہدخاقان عباسی

08:19 AM, 3 Aug, 2021

نیا دور
مسلم لیگ ن کے راہنما و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے قومی مکالمے کی ضرورت ہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ڈائیلاگ سے پہلے اعتراف کرنا ہو گا کہ ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا. انہوں نے کہا کہ نواز شریف الیکشن لڑنے کیلئے نااہل تھے، انہیں جیل ڈال دیا گیا، تین ہفتے میں کیا حکمت عملی بناتے؟

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق مفاہمت پر نواز شریف راضی ہوں گے، نواز شریف اور شہباز شریف کے موقف میں کوئی تضاد نہیں ہے.مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے 2018 کے عام انتخابات میں شکست کے حوالے سے پارٹی کے صدر شہباز شریف کے بیانیے سے اختلاف کرتے ہوئے الیکشن کی شفاف تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے پیر کو جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس بات کی تحقیقات کے لیے ٹروتھ کمیشن قائم کیا جانا چاہیے کہ انتخابات میں ایسا کیا ہوا تھا جس کے نتیجے میں عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے اتوار کی رات جیو نیوز کے پروگرام 'جرگہ' میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میں یہ کہوں گا کہ اگر ہم نے 2018 کے انتخابات سے قبل اجتماعی مشاورت سے مناسب حکمت عملی بنائی ہوتی تو شاید میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن جاتے۔

شاہد خاقان عباسی نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی جماعت الیکشن میں غلطی نہیں کر سکتی، ہم نے اپنے پانچ سالہ ریکارڈ کے بل پر الیکشن لڑا۔ 2018 کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اور اس سے ملک کو جو نقصان پہنچا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور ایک ٹروتھ کمیشن کے ذریعے اس کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

انٹرویو کے دوران جب شہباز شریف سے مسلم لیگ (ن) کے اندر موجود ابہام اور اسٹیبلشمنٹ پر انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات عائد کرنے والے اپنے بھائی نواز شریف سے یکسر مختلف سوچ اپنانے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو حقیقی ترقی کرنی ہے تو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے "آگے بڑھنا ہو گا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارٹی کی حکمت عملی اس کے صدر (شہباز شریف) نے بنائی ہے میں شہباز شریف سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے ہم کیا حکمت عملی تیار کر سکتے تھے جس سے ہمیں اقتدار میں واپس آنے میں مدد مل سکتی تھی.

انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی، کارگل آپریشن اور ماضی کی فوجی بغاوتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یا تو ہم اپنی تمام توانائیاں ماضی کی کارروائیوں کے احتساب پر صرف کر سکتے ہیں، یا ہم ماضی سے سبق سیکھ سکتے ہیں اور اپنی غلطیاں قبول کر کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے زور دیتے ہوئے کہاتھا کہ سیاستدانوں نے بھی اپنے آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دی اور ذاتی مفاد کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں، آپ ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجا سکتے، کسی ایک فرد یا ادارے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے شہباز شریف، نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے مبہم بیانیے پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں نہ تو مزاحمت ہے اور نہ ہی مفاہمت، سیاست میں صرف اصول اور آئین ہوتے ہیں، شہباز شریف نے بھی ہمیشہ آئین کے مطابق ملک چلانے کی وکالت کی ہے۔

نواز شریف کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر براہ راست تنقید کو شہباز شریف کی جانب سے جذباتی بیان قرار دینے کے سوال پر سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر صرف نواز شریف کے بیان کی وضاحت کر رہے تھے اور نواز شریف نے پوری فوج پر تنقید نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان الجھنوں کو حل کرنے کا واحد راستہ ٹروتھ کمیشن کا قیام ہے، اب آئی ایس آئی اور فوج کے سابق سربراہ کتابیں لکھ رہے ہیں، انٹرویو دے رہے ہیں اور خود حقائق عوام کے سامنے لا رہے ہیں، ان سب سے ابہام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور پارٹی کا صرف ایک بیانیہ ہے کہ ملک کو آئین کے مطابق چلانا چاہیے اور ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مسلم لیگ (ن) اپنی موجودہ حکمت عملی کے ساتھ 2023 کا الیکشن جیت سکتی ہے تو شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارٹی درست سمت میں گامزن ہے اور اگر لوگوں کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے، مسلم لیگ(ن) ہی جیتے گی۔

انہوں نے کہا کہ دھاندلی الیکشن کے دن نہیں ہوتی بلکہ یہ انتخابات سے پہلے شروع کی جاتی ہے۔  شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کے بیانات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب مسلم لیگ (ن) کی آزاد جموں و کشمیر انتخابات اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی پر بحث شروع ہوئی تھی۔

بدھ کے روز مسلم لیگ(ن) کو صوبائی اسمبلی کی ایک ایسی نشست پر حیران شکست ہوئی جس پر انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں 17ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ شہباز نے چند ماہ قبل اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ جامع مذاکرات کے انعقاد کی تجویز پیش کی تھی لیکن ابھی تک وہ اس حوالے سے نواز شریف کو قائل نہیں کر سکے۔

آزاد جموں و کشمیر کی انتخابی مہم میں بھی شہبازشریف کی کمی واضح طور پر محسوس کی گئی جہاں پوری مہم کے دوران مریم نواز اسٹیج سنبھالے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کرتی نظر آئیں۔
مزیدخبریں