انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی قومی اسمبلی میں سخت موقف اپنایا کہ خواتین نہ ماں ہے نہ بہن اور نہ بیٹیاں بلکہ خواتین ہیں اور خواتین کی حیثیت سے وہ مساوی حقوق کی مستحق ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلے ہم خواتین ہیں اور اس کے بعد ہم بیٹیاں اور بہنیں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہورہا ہے اور سخت سے سخت قوانین بھی بنیں گے تو تب تک یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا جب تک ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔پاکستان کے دور افتادہ علاقے دیر سے تعلق رکھنے والی شاد بیگم جو بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ہیں اور عرصہ دراز سے خواتین کے حقوق پر کام کرتی ہیں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں جب بھی خواتین کے خلاف جرائم ہوتے ہیں تو ان کے کیسز درج نہیں ہوتے اگر ہوبھی جاتے ہیں تو قوانین میں اتنی کمزوریاں ہے کہ خواتین کے مجرموں کو سزائیں نہیں ملتی ۔ شاد بیگم نے مزید کہا کہ جب خواتین اپنے خلاف جرائم کو رپورٹ کرتی ہیں تو انہیں سماجی دباؤ او ر معاشرے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ دور دراز کے علاقوں میں کیسز رپورٹ نہیں ہوتے اور اگر ہوبھی جاتے ہیں تو وہ سوشل میڈیا پر ٹریننڈ کی شکل اختیار نہیں کرتے جن کی وجہ سے وہ کیسز منظر عام پر نہیں آتے۔ انھوں نے مزید کہا کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے کیسز میں سزائیں بہت کم دی جاتی ہیں اس لئے خواتین کے خلاف جرائم میں کمی نہیں آتی اور مزید جرائم سامنے آتے ہیں ۔ شاد بیگم نے موقف اپنا یا کہ پھانسی یا سرعام پھانسی دینا مسئلے کا حل نہیں ہے اور دنیا اور پاکستان میں ایسے کئی جرائم ہیں جن کی سزائیں موت ہے لیکن کیا وہ جرائم ختم ہوئے اس لئے جو موجودہ قوانین ہیں ان سے سقم دور کیا جائے اور ریاست اور قانونی ادارے خواتین کے خلاف جرائم میں سخت سزاؤں سمیت لوگوں میں شعور پیدا کریں تاکہ یہ جرائم کم ہو سکیں۔
اسلام آباد پولیس نے گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی ان کیمرہ بریفنگ دی اور موقف اپنایا کہ نور مقدم کیس میں بہت سارے شواہد ملے ہیں اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبریں چل رہی ہے جس کی وجہ سے کیس خراب ہورہا ہے اس لئے کچھ معلومات ہم میڈیا سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کے کارکن اور وکلاء سمیت معاشرے کے دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے باشعور لوگ اس نکتے سے اتفاق نہیں کرتے کہ پھانسی یا سر عام پھانسی لگانے سے یہ مسائل ختم ہوجائیں گے اور موقف اپناتے ہیں کہ لوگوں میں شعور اور سزاؤں پر عمل درآمد سے ہی ان مسائل کا خاتمہ ہوگا۔ صحافی صباحت زکریہ نے نور مقدم کیس پر موقف اپناتے ہوئے کہا کہ قوانین اور سزائیں تو بعد کی باتیں ہیں لیکن ایک عورت ظلم کا شکار بھی ہوتو بھی گھر والے ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے جبکہ ایک مرد ظلم کرتا ہے قتل کرتا ہے تب بھی ان کے گھر والے ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ قانونی ماہر حسنین حیدر تہیم کا موقف ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قوانین میں سقم موجود ہے اس لئے مجرم بچ جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب ایسے جرائم میں متاثرہ خاندان رقم اور دیگر چیزیں لیکر صلح بھی کرلیتےہیں جن کی وجہ سے مجرم سزاؤں سے بچ جاتے ہیں اور پھر مزید جرائم سامنے آتے ہیں اور خواتین کے خلاف جرم کرنے والے عناصر مزید اعتماد کا شکار ہوجاتے ہیں اس لئے جب تک قانون سے سقم دور نہیں ہوگا مجرم سزا سے بچتے رہینگے ۔