'The tea is fantastic': لیفٹننٹ جنرل آصف غفور کے کریئر پر ایک نظر

08:46 PM, 3 Aug, 2022

علی وارثی
لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی کے یکم اگست 2022 کو بلوچستان میں ریسکیو سرگرمیوں کی نگرانی کے بعد رات کو کراچی واپس آتے ہوئے ہیلی کاپٹر حادثے میں اچانک موت کے بعد کور کمانڈر کوئٹہ کی پوزیشن خالی ہو گئی تھی۔ اس عہدے پر 3 اگست کی شام لیفٹننٹ جنرل آصف غفور کو تعینات کر دیا گیا ہے جو کہ اس سے قبل اوکاڑہ کور کے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔

آصف غفور ماضی میں پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ اس عہدے پر انہوں نے تین سال سے زائد عرصہ کام کیا تھا اور اس دوران انہوں نے اس محکمے کو ایک ایسے انداز میں چلایا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ آصف غفور کے زمانے میں آئی ایس پی آر نے چند تاریخی کارنامے سرانجام دیے جن کا ذکر آگے چل کر۔

لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے 1988 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ یہ کارگل کی جنگ میں بھی بطور میجر حصہ لے چکے ہیں۔ بعد ازاں 2008 سے 2010 کے درمیان سابق فاٹا اور سوات میں ہوئے آپریشنز میں بھی انہوں نے بطور لیفٹننٹ کرنل حصہ لیا۔ 2016 میں یہ سوات میں ایک ڈویژن کے کمانڈر تھے اور پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

جنرل آصف غفور کا بطور ڈی جی آئی ایس پی آر سب سے بڑا کارنامہ 2019 میں بھارتی جارحیت کے موقع پر سامنے آیا جب ایک بھارتی طیارہ پاکستانی ایئر فورس کے طیاروں کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوا اور پاکستان نے اسے مار گرایا۔ بھارتی میڈیا کے لئے یہ حیرت انگیز تھا۔ محض ایک دن قبل پورا بھارتی میڈیا فتح و نصرت کے بلاوجہ شادیانے بجا رہا تھا کیونکہ ایک بھارتی طیارہ کشمیر کے رستے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہو کر بالاکوٹ کے مقام پر کوئی مٹی پھینک کر چلا گیا تھا اور واپسی پر دعویٰ کر دیا تھا کہ اس نے کوئی 200 کے قریب دہشتگرد پاکستان میں مار ڈالے ہیں۔ تاہم، اگلے ہی روز یعنی 27 فروری کو پاکستانی ایئر فورس نے جوابی کارروائی کی اور بھارتی جہاز کو اپنے پیچھے لگا لائے۔ یہاں جہاز گرا کر پائلٹ کو گرفتار کر لیا اور پھر اس کی ویڈیو ریلیز کی جس میں ابھینندن نامی پائلٹ پاکستانی فوج کی تحویل میں چائے نوش کرتے ہوئے اس کی تعریف کر رہا تھا۔ اس کا جملہ The tea is fantastic خوب مشہور ہوا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اپنی ٹی شرٹس پر یہ لائنیں لکھ کر اس جیت کو celebrate کیا۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

پاکستان نے فوری طور پر بالاکوٹ کو بھی میڈیا کے لئے کھول دیا اور عالمی میڈیا میں فوراً خبریں چلنے لگیں کہ وہاں کوئی ٹریننگ سنٹر موجود نہیں تھا اور بھارت جس جگہ کو تباہ کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے، وہ ایک خالی میدان ہے۔ بھارتی حکومت غلطیوں پر غلطیاں کر رہی تھی۔ سبکی مٹانے کے لئے بھارت نے الزام لگایا کہ پاکستان نے F16 کا استعمال کر کے بھارتی مگ طیارہ گرایا تھا جب کہ امریکی حکومت سے معاہدے کے تحت پاکستان ان طیاروں کو بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے کا پابند تھا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک پاکستانی F16 بھی مار گرایا تھا۔ یہ دعویٰ یوں تو اپنی طاقت دکھانے کے لئے کیا گیا لیکن چونکہ یہ محض جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھا اس پر بھی اسے مزید سبکی برداشت کرنا پڑی جب عالمی میڈیا میں رپورٹس چلیں کہ پاکستان کے تمام F16 جہاز بالکل محفوظ ہیں۔

یہ سب کچھ لیفٹننٹ جنرل آصف غفور کی قیادت میں آئی ایس پی آر ہی کا کارنامہ تھا اور کئی بھارتی چینلز پر بعد ازاں تسلیم بھی کیا گیا کہ پاکستانی ISPR کی میڈیا حکمتِ عملی انتہائی کامیاب اور پراثر تھی۔

تاہم، بطور DG ISPR ان کے نام سے کچھ تنازعات بھی منسوب ہیں۔ ان میں سرفہرست ظاہر ہے کہ ڈان لیکس کی رپورٹ کا معاملہ ہے جس پر انہوں نے سرکاری اکاؤنٹ سے ٹوئیٹ کیا تھا کہ جاری شدہ رپورٹ نامکمل ہے لہٰذا اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ اس ٹوئیٹ سے ملک میں ایک بڑا تنازع کھڑا ہو گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد فوج اور سویلین حکومت میں مذاکرات کامیاب ہوئے جس کے نتیجے میں یہ ٹوئیٹ واپس لیا گیا تھا۔

2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت کی رپورٹس آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے ٹوئیٹ داغا تھا وتعز من تشاء وتذل من تشاء۔ اس پر بھی کئی دن خوب لے دے جاری رہی۔ عمران خان کی حکومت پر تنقید ہونا شروع ہوئی تو آصف غفور نے ایک بڑی پریس کانفرنس میں صحافیوں اور میڈیا اداروں کو مشورہ دیا کہ نئی حکومت کو کم از کم 6 ماہ دیں اور تب تک ملک کی مثبت تصویر کشی کریں۔ اور ایک موقع پر انہوں نے سوشل میڈیا صارفین کی تصاویر کا ایک چارٹ دکھا کر کہا تھا کہ یہ افراد قومی اداروں کے خلاف پراپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس عمل پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ان صارفین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا گیا تھا۔ تاہم، جلد ہی یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔

یہ کہنا یہاں ضروری ہے کہ آصف غفور وہی کر رہے تھے جو ادارے کی پالیسی تھی۔ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں یہ فیصلے لینے کے مجاذ نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ بھی کیا، وہ ادارے ہی کے احکامات کے تحت کیا۔ جنرل غفور کے پاکستانی میڈیا مالکان اور نامور صحافیوں سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ بلکہ ان کا دور جنرل عاصم باجوہ سے بھی اہم مانا جاتا ہے۔ اس وقت جب ن لیگ فوج پہ تنقید کر رہی تھی جنرل غفور نے ادارے کو بھر پور ڈیفنڈ کیا اور کچھ مبصرین کے مطابق ان کی اسی کارکردگی کے باعث ان کو ترقیاں ملی ہیں۔
مزیدخبریں