نجی چینلز، سیاسی بھرتیاں، بدانتظامی؛ پی ٹی وی کو یہاں تک کس نے پہنچایا؟

کوئی بھی پرائیویٹ ڈرامہ پروڈیوسر اچھی طرح جانتا ہے کہ جو چیز کوئی دوسرا چینل نہیں خریدے گا، اسے پی ٹی وی کو بہت زیادہ قیمت پر بیچا جا سکتا ہے۔ ٹاک شوز بھی کرپشن سے پاک نہیں۔ بھاری معاوضوں پر من پسند افراد کی بطور اینکر اور تجزیہ کار خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جن میں خدا جانتا ہے کہ سیاسی یا ذاتی روابط کے علاوہ اور کون سی خوبی ہے۔

05:51 PM, 3 Aug, 2023

ڈاکٹر حسن ظفر

پیمرا 2002 میں صدارتی آرڈیننس کے تحت آیا اور نجی ٹیلی ویژن چینلز نے اپنی نشریات شروع کر دیں۔ آزادی اظہار کی بھوکی قوم کو جلد ہی ہر طرف بے لگام آوازیں سنائی دینے لگیں اور ان آوازوں نے ساکھ اور سامعین دونوں کمائے۔ ریاستی کنٹرول میں جکڑا پی ٹی وی اس سب کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھا۔ اسے اب دو چیلنجز کا سامنا تھا۔ ایک قومی نشریاتی ادارے کے طور پر اپنی حیثیت اور کردار کو برقرار رکھنا۔ کم از کم اصولی طور پر، تجارتی ٹیلی ویژن کے طور پر نہیں۔ دوسری طرف ستم ظریفی یہ کہ اس نے تجارتی ٹیلی ویژن بننے کی کوشش کی۔

1۔ ٹی وی لائسنس فیس سے ناکافی آمدنی کی وجہ سے۔

2۔ ڈرائیونگ سیٹوں پر بیٹھے ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے پیشہ ور افراد کی طرف سے مقرر کردہ سمت کی وجہ سے۔

ان کی پالیسیوں نے پی ٹی وی کو ایک قومی نشریاتی ادارے کے طور پر ہدف سے دور کر دیا جو کہ بحیثیت ایک قومی نشریاتی ادارے کے اس کی ذمہ داری تھی۔ جیسے کہ قومی شناخت کو فروغ دینا اور قومی مفاد کے معاملات کو اجاگر کرنا، نا کہ حکومتوں کی مدح سرائی کرنا۔

نجی ٹی وی چینلز اور بھی نئے امتحان اور آزمائشیں لے کر آئے۔

نجی تجارتی چینلز نے اشتہارات کی تقسیم کر دی تھی۔ نتیجتاً، پی ٹی وی نے حکومتی سرپرستی میں چلنے والی اشتہاری مہموں پر زیادہ انحصار شروع کیا۔ یہ ایک طرح سے مقابلے سے دستبرداری کا اعلان تھا۔ اعلیٰ عہدوں پہ براجمان سیاسی، اشتہارات اور مارکیٹنگ کے پیشہ ور افراد کی بدولت پروڈکشن کے معیار متاثر ہوئے۔ کمرشل ٹی وی چینلز کے مقابلے میں کیبل اور سیٹلائیٹ کے علاوہ پی ٹی وی ٹیریسٹریل سسٹم پر بھی دستیاب تھا۔ اس نے پی ٹی وی کو اپنی سکرینوں پر کمرشل اشتہارات کی بلند شرح برقرار رکھنے میں مدد دی۔ لیکن پھر بھی اس کی مالیاتی بیلنس شیٹ ہمیشہ خراب ہی رہی۔

اس بات کا اعتراف وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید نے اپنے 2004 کے عوامی بیان میں کیا تھا۔ انہوں نے واضح طور پر ریمارکس دیے تھے کہ اگر حکومت نے بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس کا اضافہ نہیں کیا، اس بات سے قطع نظر کہ بجلی کے صارفین کے پاس ٹی وی سیٹ ہے یا نہیں، تو پی ٹی وی کو اپنے معاملات چلانے کے لیے کیمرے بیچنے پڑیں گے۔ 7 اگست 2004 کا بزنس ریکارڈر رپورٹ کرتا ہے کہ ' پاکستان ٹیلی ویژن نے اس مالی سال میں صرف ٹی وی لائسنس فیس کے ذریعے 3.1 سے 3.2 بلین روپے کمانے کا تخمینہ لگایا ہے'۔

اب سوال یہ کہ کمرشل اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی کے علاوہ ہر سال یہ 3 ارب روپے سے زیادہ کہاں جاتے رہے ہیں؟

جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے مضمون 'یہ پی ٹی وی ہے: اور یہاں کوئی خبر نہیں ہے'، جو 31 جولائی 2023 کو مشرق میں شائع ہوا تھا، میں اشارہ کیا تھا کہ سیاسی شمولیت کے ذریعے زیادہ ملازمین نے 1990 کی دہائی میں پی ٹی وی کو زوال کا شکار کیا۔ ان میں سے اکثر یا تو قدرتی طور پر نااہل تھے یا نکھٹو اور نٹھلے تھے۔ یا دونوں تھے۔ کوئی بھی پی ٹی وی کے حکام سے اس بات کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے کہ ہر پروڈیوسر کی طرف سے سالانہ کتنے گھنٹے کے پروگرام بنائے گئے ہیں۔ خاص طور پر 1988 سے 1999 کے دوران بھرتی کیے گئے افراد۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اعداد و شمار بہت دلچسپ ہوں گے اور حقائق واضح کر دیں گے۔

پروگراموں کا معیار دلچسپی کا ایک اور معاملہ ہے جس کا تعین شاید قارئین خود کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہر سال اربوں روپے ضائع کیے جاتے ہیں۔ کچھ نہ کرنے پر، یا ایسے معیار کے پروگرام بنانے پر جنہیں دیکھ کے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ایسا ٹی وی چینل تعریف کمانے کے سوا کچھ بھی کر سکتا ہے۔

باقی ساری کسر کرپشن نے پوری کر دی۔

پی ٹی وی نے پرائیویٹ پروگراموں کی خریداری میں جو بدنامی حاصل کی، اس سے رہی سہی کثر بھی پوری ہو گئی۔ یہ ہیں آؤٹ سورسنگ کی پالیسی کے حقیقی ثمرات جو کہ مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ پروفیشنلز اس ادارے میں لائے تھے۔ کوئی بھی پرائیویٹ ڈرامہ پروڈیوسر اچھی طرح جانتا ہے کہ جو چیز کوئی دوسرا چینل نہیں خریدے گا، اسے پی ٹی وی کو بہت زیادہ قیمت پر بیچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ ناقابل تردید۔ مارکیٹ کا ہر شخص اسے جانتا ہے۔ ٹاک شوز بھی کرپشن سے پاک نہیں۔ بھاری معاوضوں پر من پسند افراد کی بطور اینکر اور تجزیہ کار خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جن میں خدا جانتا ہے کہ سیاسی یا ذاتی روابط کے علاوہ اور کون سی خوبی ہے۔ ان میں سے بیش تر کے اردو اور انگریزی لہجے اور تلفظ ایک اور دلچسپی کا امر ہیں۔

یہ سب وقت کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کا معمول بن گیا اور ان تمام فن کی بلندیوں کے باعث آمدنی اور ساکھ میں کمی واقع ہوئی۔ انفراسٹرکچر برباد ہو گیا۔ پی ٹی وی کی وہ عمارتیں جن کی خوشبو کبھی بہت اچھی اور پرکشش محسوس ہوتی تھی، اب خستہ حال نظر آتی ہیں۔ ٹوٹا پھوٹا فرنیچر، ناکارہ انٹیریئر، پرانے سامان کے ساتھ دقیانوسی طریقے۔ قصہ مختصر پی ٹی وی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور ماڈرن انداز کے پروگراموں کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر ناکارہ ہو گیا۔

پرائیویٹ چینلز نے خوب ترقی کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں بہت سے نجی چینلز میں اعلیٰ عہدوں پر پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسرز اور ایگزیکٹوز کا راج تھا۔ ان میں سے بیش تر کا تعلق پی ٹی وی کے ابتدائی دور سے تھا۔ جس انداز سے انہوں نے پی ٹی وی کی خوب خدمت کی تھی، پرائیویٹ چینلز کے قیام میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوایا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ 2000 کے بعد کے دور میں پی ٹی وی کے ساتھ اصل مسئلہ ہیومن ریسورس کی صلاحیت کا تھا جنہیں پچھلی دہائی میں بھرتی کیا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں۔ لیکن ان میں سے چند شاید بعد میں آنے والوں سے قدرے بہتر تھے۔ ان کی صلاحیتیں آج پی ٹی وی سکرینوں پر پروگراموں کے معیار سے بہت واضح نظر آتی ہیں جن کا ہم روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کرتے ہیں۔

مارچ 2022 میں وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اعلان کیا کہ پی ٹی وی نے 4 ارب روپے کا منافع کمایا ہے۔ انہوں نے فخریہ کہا کہ ان کی وزارت کے تحت پی ٹی وی نے اپنے نیٹ ورک کے دو چینلز کو ڈیجیٹائز کیا ہے۔ لیکن وہ شاید اس بات سے بے خبر تھے کہ اس کا ڈیجیٹل پی ٹی وی 720p  کی ویڈیو کوالٹی میں پروگرام نشر کر رہا ہے جو سب سے کم ڈیجیٹل معیار ہے۔ وہ شاید ان فرسودہ ٹی وی کیمروں سے بھی واقف نہیں تھے جنہیں چھوٹے پروڈکشن ہاؤسز بھی متروک کر چکے ہیں اور جو اب بھی پی ٹی وی کے زیر استعمال ہیں۔ آپ ان جیسا کیمرہ کسی بھی سیکنڈ ہینڈ آن لائن دکان پر 5 ہزار روپے سے کم میں حاصل کر سکتے ہیں۔ یعنی اس سامان کو بیچنے سے بھی پی ٹی وی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جیسا کہ سابق وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید نے ایک بار سوچا تھا۔

فواد چودھری شاید پی ٹی وی کے پانچوں سٹیشنز کی حالت سے بھی بالکل واقف نہیں تھے۔ یہاں تک کہ ان عمارتوں کی ایک سادہ مرمت اور مناسب دیکھ بھال اور جدید آلات کی خریداری پر اس رقم سے بہت زیادہ لاگت آئے گی جس کے بارے میں وہ بہت خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔

موجودہ دور میں جو ہوا وہ ایک اور داستان ہے، یعنی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

مزیدخبریں