جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن کئی حوالوں سے غیر مربوط سوچ ہے (I)

بانی پاکستان کے سیاسی نظریات اور قانونی معاہدوں کو سامنے رکھتے ہوئے جنرل صاحب کو ملک کو درپیش اس اہم مسئلے اور اس کے حل کی طرف پیش رفت پر نوجوان نسل کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے تھا اور ناراض لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا کوئی لائحہ عمل دینا چاہیے تھا۔

08:01 PM, 3 Aug, 2024

اختر حسین

ہمارے ملک کے چند ایک صحافی اور تجزیہ نگار جن کی میں قدر کرتا ہوں اور ان کے کالم اور مضامین کو غور سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں، خواہ ان کے نظریات سے اتفاق کرتا ہوں یا نہیں، ان میں ایک معتبر نام جناب سلیم صافی کا ہے۔ ان کے تجزیے اور تبصرے انتہائی دانش اور سنجیدگی پر مبنی ہوتے ہیں۔

ان کا روزنامہ جنگ میں تین روزہ کالم مورخہ 27، 28 اور 29 جنوری 2024 کو ' جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن' کے عنوان سے بغیر کسی تبصرے کے شائع ہوا۔ سوچا تھا جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن پر وہ ضرور تبصرہ بھی کریں گے لیکن انہوں نے جنرل صاحب کی تقریر جو انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے نمائندہ تقریباً 2 ہزار طلبہ و طالبات اور وائس چانسلرز کے سامنے کی جو تین گھنٹے محیط تھی، من و عن شائع کر دی۔ جناب سلیم صافی کے مطابق ان کا خطاب اتنا جامع اور تفصیلی تھا کہ ان کے بعد نگران وزیر اعظم جناب انوار الحق کاکڑ کو بلایا گیا تو وہ صرف اتنا کہہ سکے کہ آرمی چیف کے خطاب کے بعد ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں شروع سے (فیلڈ مارشل ایوب خاں سے جنرل عاصم منیر تک) آرمی چیف کے بعد کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

میں نے سوچا تھا کہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ کے مختلف تجربات کے بعد جہاں دنیا میں بے پناہ سائنسی، معاشی، سیاسی و سماجی تبدیلیاں آ گئی ہیں جن میں سرد جنگ کے دوران ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان وجود میں آیا، کن کن ادوار سے ہم گزرے، سامراجی فوجی معاہدوں نے ہماری معیشت اور سیاست پر کیا اثرات مرتب کیے، اس سرد جنگ کے خاتمے، سوویت یونین کے انہدام، دنیا کی نئی تقسیم، نئے تجربات، سامراجی معیشت کے مقابلے میں چین کی ابھرتی ہوئی اشتراکیت پذیر معیشت اور ایک نئی سرد جنگ کی شروعات، نئی علاقائی معاشی صف بندیوں، سائنس اور خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب جس نے انسانی تہذیب و ثقافت میں بے پناہ تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں اور پاکستان جو ابھی بھی قبائلی و جاگیرداری باقیات کا ملک ہے، جہاں بنیادی جمہوری ادارے اور جمہوری قدریں متزلزل ہیں۔ حقیقی وفاقیت کے عدم قیام سے علیحدگی اور مذہبی انتہا پسندی کی مسلح تحریکیں ہیں۔

تعلیمی معیار انتہائی پس ماندہ ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت 15 سال کی عمر تک تعلیم لازمی ہونے کے باوجود دو کروڑ 80 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں، تقریباً ایک کروڑ ماڈرن ایجوکیشن سے محروم مذہبی مدرسوں میں پڑھتے ہیں۔ اور تعلیم پر جی ڈی پی کا بجٹ 1.75 فیصد سے کم ہو کر 1.63 فیصد رہ گیا ہے۔ صحت پر ملک کا 1 فیصد بجٹ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ کئی دہائیوں پر محیط مذہبی انتہاپسندی کی تعلیم و تبلیغ نے پورے سماج کو متعصب اور عدم برداشت کا معاشرہ بنا دیا ہے۔ ملک کے بیرونی قرضے 128 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ کھربوں روپے کے اندورنی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔ تمام پڑوسی ملکوں سے خاص کر بھارت، ایران، افغانستان سے تعلقات نا گفتہ بہ ہیں۔ ملک میں غربت کی شرح 10 ڈالر ماہانہ کے حساب سے 39.2 فیصد ہے یعنی 24 کروڑ میں سے 9 کروڑ 60 لاکھ لوگ سطح غربت سے نیچے رہتے ہیں۔ IMF اور ورلڈ بینک کی نئی پابندیاں عائد ہو رہی ہیں۔

فی الحال اس بحث کو چھوڑ دیں کہ افواج پاکستان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 243 سے 245 کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دینا چاہیے، لیکن اس کے لیے تو تمام سیاسی پارٹیوں میں یہ کمنٹمنٹ چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی جدوجہد سے افواج پاکستان اور اس کے اعلیٰ افسران کو اس کے لیے مجبور کریں اور خلاف ورزی آرٹیکل 6 کے زمرے میں لائی جائے لیکن فی الحال تو فوج کے سربراہ ناصرف ملکی معیشت کو بھی ٹھیک کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیے ہوئے ہیں اور بڑی پارلیمانی سیاسی پارٹیاں سرنگوں ہیں لہٰذا ان معاشی، سیاسی و سماجی حالات میں توقع تھی کہ شاید پاکستان کے عقل مند ترین اور سب سے با اختیار انسان جو آرمی چیف ہی ہو سکتا ہے اور وہ دعویٰ بھی یہی کرتے ہیں، پاکستان کے اندر نئی تبدیلیوں اور ترقی کی ڈاکٹرائن سے ان ہزاروں نوجوانوں جن سے وہ خطاب کر رہے تھے اور لاکھوں جنہوں نے سنا، بشمول ہمارے سول حکمرانوں اور تمام سیاسی پارٹیوں کے، ان کی رہنمائی کریں گے۔

انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز علامہ اقبال کے اس شعر سے کیا؛

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ہوتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد

لیکن انہوں نے نوجونوں کو یہ نہیں بتایا کہ ان میں خودی کیسے پیدا ہو گی اور پھر خودی صورت فولاد کیسے بنے گی۔ پھر انہوں نے اقبال کے فلسفہ خودی کی تشریح کیے بغیر فوراً کہا؛

'کہ ہمارے آباؤاجداد نے ہندوؤں سے آزادی حاصل کی کیونکہ ہمارا مذہب، ہماری تہذیب اور رہن سہن ان سے مختلف ہے اور برطانیہ پر اپنی برتری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں عورتوں کو ووٹ کا حق ساٹھ کے عشرے میں دیا گیا جبکہ ہمیں 1947 میں حاصل ہو گیا۔ دوسرا پاکستان اور ریاست مدینہ یا ریاست یثرب کی مماثلت بیان کی کہ دونوں کی بنیاد ہجرت پر ہے یعنی ہماری پہلی ہجرت خلافت تحریک کے دوران اور دوسری ہند و پاک کی تقسیم کے وقت'۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ نوجوان نسل کو کیا فکر دے رہے ہیں، کیا تاریخ پڑھا رہے ہیں اور کیا تربیت کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے آزادی انگریز سامراج سے حاصل کی تھی یا ہندوؤں سے؟ یعنی نوجوان نسل کے سامنے انگریز سامراج کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے جنہوں نے 100 سال سے زیادہ ہم پر یعنی پورے ہندوستان پر حکومت کی اور ہم ان کی معاشی و سیاسی غلامی میں رہے، اس سے پہلے کئی صدیاں برصغیر ہندوستان میں ہندو مسلم بلکہ کئی مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی تہذیب و تمدن کے ساتھ اکٹھے رہتے تھے جہاں مسلمانوں نے تقریباً 300 سال حکومت کی اور انگریز نے مسلمان (مغل) بادشاہت کا خاتمہ کیا۔

1857 سے 1947 تک ہم آزادی کی جدوجہد کے کن کن مرحلوں سے گزرے، منگل پانڈے سے لے کر لالہ لجپت رائے، اشفاق اللہ خان اور بھگت سنگھ سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بے شمار ہیروز اور ہزاروں لوگوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، ان ہیروز کی قربانیوں کا ذکر کر کے ہی نوجوانوں کا جذبہ خودی بلند ہو گا۔ یہی وہ وقت ہے کہ ہم نئی نسل کو حقیقی آزادی کی فکر سے مسلح کریں۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی وجوہات تو بالکل مختلف ہیں اور وہ یقیناً معاشی و سیاسی ہیں۔ مسلمان معاشی و سماجی طور پر پسماندہ کیوں رہ گئے تھے اور غیر مسلموں کی بالادستی کا خوف کیوں تھا؟ اس پر الگ سے تفصیل بیان کی جا سکتی ہے کہ اس میں ہندو مسلم تقسیم کے لیے انگریز سامراج کی سازشیں کتنی تھیں اور قائد اعظم یا مسلم لیگ کے جائز مطالبات کے خلاف کانگریس کی لیڈرشپ کی ہٹ دھرمی یا تنگ نظری کتنی تھی۔

آخر کیونکر 1946 کے کیبنٹ مشن پلان یعنی ہندوستانی یونین کو قائم رکھتے ہوئے A.B.C پلان کو قائداعظم و مسلم لیگ نے تسلیم کر لیا تھا (یعنی موجودہ پاکستان کے علاقے A بنگال اور آسام B اور باقی ماندہ ہندوستان C تینوں داخلی طور پر خود مختار اکائیاں ہوں گی اور ہندوستانی یونین کے پاس صرف تین محکمے امور خارجہ، دفاع اور مواصلات ہی ہوں گے) جس کو مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کانگریس کے صدر کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا مگر مولانا کے مطابق اس وقت کانگریس کے انتخابات ہو رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کوئی ترقی پسند نوجوان قیادت کرے اور صدر بنے تو انہوں نے جواہر لال نہرو کا نام پیش کیا اور نہرو نے ایک سوال پر کہا کہ ABC پلان کا فیصلہ آنے والی پارلیمنٹ کرے گی۔ گویا ان کے انکار کر دینے کے بعد قائد اعظم نے کہا کہ اب تقسیم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

یہاں میں نے کیبنٹ مشن پلان کا ذکر جنرل صاحب کی خاص ذمہ داری کے حوالے سے کیا ہے جو ملک کے دفاع اور سکیورٹی سے متعلق ہے۔ قائد اعظم نے ہمیشہ ہندوستانی یونین کے اندر مختلف ریاستوں یا صوبوں کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کی اور اس پر یقین رکھتے تھے کہ یونین یا وفاق کے پاس صرف تین ہی محکمے ہوں یعنی دفاع، امور خارجہ اور کیمونیکیشن۔ اسی لیے انہوں نے A.B.C پلان کو منظور کر لیا تھا اور پاکستان کے قیام کے بعد ریاست قلات کا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ تھا جو خان آف قلات کے ساتھ انہوں نے معاہدہ کیا۔ (ایسے ہی معاہدے دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی کیے) اس میں بھی وفاق کے پاس تین ہی محکمے رکھے گئے تھے یعنی پاکستانی وفاق کے پاس صرف دفاع، امور خارجہ اور کمیونیکیشن کے محکمے تھے۔ باقی تمام معاملات میں ریاست قلات (موجودہ صوبہ بلوچستان) خودمختار ہو گی۔ حقیقی وفاقیت کے قیام کے لیے قائد اعظم کی سوچ یہی تھی۔

مجھے یقین ہے کہ اگر زندگی ساتھ دیتی اور قائداعظم کچھ عرصہ اور زندہ رہتے اور پاکستان کا آئین ان کی موجودگی میں تشکیل پاتا تو صوبوں کی خودمختاری کا مسئلہ اسی اصول کے تحت حل ہو جاتا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد ملک کن حادثات سے گزرا اور ہم سامراجی فوجی معاہدوں کی وجہ سے سکیورٹی سٹیٹ بن گئے۔ اور 76 سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے یہاں صوبائی خودمختاری کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ 1973 کے آئین کی تشکیل کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے ان پر بھی عمل نہیں ہوا اور چھوٹے صوبے اور خاص کر بلوچستان سراپا احتجاج ہیں۔ اور کئی دفعہ وہاں کے لوگوں نے مسلح جدوجہد بھی کی اور اب بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔

آرمی چیف کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ وہ ہر قسم کی مسلح جدوجہد کو کچل دیں گے۔ ہمارے خیال میں سیاسی و معاشی مسائل محض طاقت کی بنیاد پر حل نہیں کیے جا سکتے۔ بانی پاکستان کے سیاسی نظریات اور قانونی معاہدوں کو سامنے رکھتے ہوئے میرے خیال میں جنرل صاحب کو ملک کو درپیش اس اہم مسئلے اور اس کے حل کی طرف پیش رفت پر نوجوان نسل کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے تھا اور ناراض لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا کوئی لائحہ عمل دینا چاہیے تھا۔

جاری ہے۔۔۔

مزیدخبریں