ڈان کے پہلے پاکستانی مدیر الطاف حسین قریشی جو کہ قائد اعظم کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے، ایوب خان کے دور میں تین سال تک وزیرِ داخلہ رہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=KZIdp4WGiLc
ایک وقت وہ بھی تھا جب 1960 کی دہائی میں ایوب خان صاحب ملک بھر کے اخباروں پر قبضے کر رہے تھے۔ اور اس کام کے لئے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈر (PPO) کے تخلیق کار الطاف گوہر تھے جو 1969 میں ریٹائر ہوتے ہی ڈان اخبار کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔
انہی کا دور تھا جب 16 دسمبر 1971 کو، جس دن پاکستانی افواج نے بنگال میں ہتھیار ڈالے، صبح اخبار میں یحییٰ خان کا بیان کہ ’فتح تک جنگ جاری رہے گی‘ ایک بڑی سی شہ سرخی تھا، اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خبر تھی جس کی سرخی یوں تھی گویا پاکستان اور بھارت نے دوستی کر لی ہے۔
"Fighting ends in East Wing: PAF hits in West"
’مشرقی پاکستان میں لڑائی ختم، ائر فورس نے مغربی پاکستان میں دشمن کو نقصان پہنچایا‘۔ ہتھیار ڈالے جانے کے واقعے کو کچھ اس انداز میں بیان کیا گیا تھا کہ اگر آپ ’بیان کیا گیا تھا‘ کو ’چھپایا گیا تھا‘ بھی پڑھ لیں تو غلط نہ ہوگا۔
https://www.youtube.com/watch?v=7Hsk1vndToc
’تازہ ترین اطلاعات اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ بھارت اور پاکستان کی مقامی کمانڈروں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا ہے کہ مشرقی پاکستان میں جنگ بند کر دی جائے اور بھارتی افواج ڈھاکہ میں داخل ہو گئی ہیں‘۔
یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ محمود ہارون، جو کئی سال ڈان میڈیا گروپ کے چیئرمین رہے، جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں 6 سال وزیر داخلہ رہے اور محمد خان جونیجو حکومت برطرف کی گئی تو جنرل ضیا نے ان کو ایک مرتبہ پھر اپنی کابینہ میں شامل کیا اور انہیں وزیر دفاع بھی بنایا۔
اس کے بعد بھی 2013 تک ہارون خاندان ہی کے حسین ہارون پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں سفیر رہے۔ یعنی ڈان اخبار کے مالکان اور ریاستِ پاکستان کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں رہے لیکن مختلف ادوار میں اختلافات بھی شدید نوعیت اختیار کرتے رہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=-jwrOghD2Ms
تاہم، گذشتہ چند سالوں میں ڈان نے سینسرشپ کا بڑی حد تک مقابلہ کیا ہے۔ ڈان لیکس کے معاملے میں بھی اخبار، خبر کے رپورٹر سرل المیڈہ اور مدیر ظفر عباس نے مثالی استقامت کا مظاہرہ کیا۔ 2016 میں چھپنے والی اس خبر کے بعد سے ڈان مسلسل زیرِ عتاب ہے، اور اس کے خلاف ایک مہم بڑی تندہی کے ساتھ جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر آئے روز ڈان پر غداری کے فتوے جاری کیے جا رہے ہوتے ہیں، کینٹ کے علاقوں میں اس کی سرکولیشن بند کروائی گئی۔ ڈان لیکس کے رپورٹر سرل المیڈہ کا ہفتہ وار کالم بند کیا گیا۔
2018 کے انتخابات سے قبل ڈان میڈیا گروپ کے CEO حمید ہارون نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اخبار کی ترسیل کو روکے جانے کا ذکر بھی کیا، اور بتایا کہ ان کے اخبار کے اشتہارات بند کر کے اسے مالی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شاید انہی قدغنوں کا نتیجہ تھا کہ اب سے کچھ عرصہ قبل سرل المیڈہ ڈان اخبار سے کنارہ کشی پر مجبور ہو گئے اور صحافت ہی کو خیرباد کہہ ڈالا۔ ان کی جگہ فہد حسین نے پر کی ہے، جو کہ مقتدر قوتوں کو ناراض نہ کرنے کا فن جانتے ہیں۔
حال ہی میں ڈان نے برطانوی حکام کی جانب سے لندن برج پر پکڑے جانے والے شخص سے متعلق بیان کو سینسر نہیں کیا، جس کے باعث ڈان ایک بار پھر الزامات کی زد پر ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق بھی فرما رہی ہیں کہ اس خبر کے پیچھے ڈان کا کوئی مخصوص ’ایجنڈا‘ ہے۔
تقریباً دو درجن افراد نے سوموار کو ڈان کے اسلام آباد دفتر پر حملہ کیا، اور اس کے خارجی اور داخلی راستے بند کر کے سٹاف کو دفتر کے اندر ہی محصور کر دیا۔ بعدازاں ڈان انتظامیہ کے ایک اہلکار نے دل آزاری پر معافی مانگی اور مظاہرین نعرے لگاتے ہوئے منتشر ہو گئے۔
پاکستان میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کی زباں بندی کا یہ سلسلہ نیا نہیں۔ حالیہ چند سالوں میں جیو نیوز کے خلاف جو کچھ ہوتا رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جیو نے 2014 میں حامد میر پر حملے کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ظہیر الاسلام پر الزام عائد کیا تھا کہ میر صاحب پر حملے کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔ اس کے بعد کئی سال تک جنگ گروپ اور جیو نیوز زیرِ عتاب رہا۔ پی ٹی آئی کے 2014 دھرنے کے دوران چینل اور اس کے رپورٹرز پر کئی بار حملے کیے گئے۔ 2017 میں پاناما سکینڈل کے دوران بھی جنگ گروپ نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف میڈیا کیمپین کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ اس کے پیچھے یقیناً جنگ گروپ کے مالی مفادات تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نواز مقبول تھی، اور جیو نیوز پنجاب کی اس audience کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔
لیکن انتخابات کے بعد بالآخر جیو کو بھی حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ طلعت حسین کو نوکری سے فارغ کیا گیا۔ اور آج بڑی حد تک جنگ گروپ بھی سدھایا جا چکا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کبھی کبھی کچھ بول دیتے ہیں، باقی ہر طرف امن ہی امن ہے۔
2018 انتخابات کے بعد صرف جیو نیوز ہی نے خود کو نئے حقائق کے مطابق نہیں ڈھالا ہے۔ مختلف چینلز سے اینکرز کو نکالا گیا ہے۔ مطیع اللہ جان اور مرتضیٰ سولنگی بھی وقت نیوز اور کیپیٹل ٹی وی پر اینکر تھے۔ آج وہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک اپنی بات پہنچا رہے ہیں۔ ثنا بچہ بھی سوشل میڈیا تک محدود ہیں۔ نجم سیٹھی اور طلعت حسین اپنے اپنے یوٹیوب چینلز پر اپنے تجزیے دے رہے ہیں۔ اور الیکٹرانک میڈیا پر صرف وہی چہرے قابلِ قبول ہیں جو کھیل کے قوانین پر سمجھوتہ کر چکے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=ZgbKjD0tB3k
جو تاحال سمجھوتہ نہیں کر سکے ہیں، ان کی سوشل میڈیا پر bullying جاری رہتی ہے۔ کبھی کفر کے فتوے لگتے ہیں، تو کبھی غداری کے۔
سوال یہاں یہ ہے کہ کیا یہ سب وزیر اعظم عمران خان کی مرضی سے ہو رہا ہے، جن کی سیاسی جماعت وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ میڈیا نہ ہوتا تو کبھی کامیابی حاصل نہ کر پاتی؟ یا پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ فیصلے اپنے تئیں کر رہے ہیں؟
لگتا یہی ہے کہ ریاست نے اب تک ماضی سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی قدغنیں لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ فیسبک کے مطابق گذشتہ برس دنیا بھر میں فیسبک پیجز بند کرنے کی سب سے زیادہ درخواستیں پاکستان سے موصول ہوئیں۔ ٹوئٹر پر صحافیوں کو آئے روز ان کی ٹوئیٹس رپورٹ کیے جانے اور ڈیلیٹ کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں، اور ایسا پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ان قوانین کا اطلاق جرمنی میں بیٹھے لوگوں پر بھی ہو جاتا ہے۔
ریاست کو یہ سوچنا ہوگا کہ یہ سینسرشپ کب تک جاری رہے گی اور یہ کس حد تک کامیاب ہوگی؟ عمران خان کو بھی سوچنا ہوگا کہ میڈیا میں ان کے خلاف پہلے ہی ایک مہم شروع ہے، اور ایسی پابندیوں سے وہ میڈیا کو مزید اپنے خلاف کر رہے ہیں۔
کیا یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا؟ یا اسے ٹھیک کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی کی جائے گی؟ یہ 1960 کی دہائی کا پاکستان نہیں ہے۔ کیونکہ یہ 1960 کی دہائی ہے ہی نہیں۔ یہ 2019 ہے اور آج کے سوشل میڈیا دور میں خبر رک نہیں سکتی۔ یہ اپنا راستہ تلاش کر ہی لیتی ہے۔ عوام کو سب پتہ ہے۔ آپ بھی 2019 میں آ جائیے۔ نوآبادیاتی ذہنیت کو خیرباد کہیے۔ نئے دور کے نئے حقائق کو سمجھیے۔ اسی میں اس ملک کی بہتری ہے۔