یہی لیجیئے! آہنی میڈیا ونگ کی پیشکش 'صنفِ آہن' سے اب صدیوں سنبھلی ہا سنبھالی نازکییت کو فولادیت میں بدل دیا گیا ہے۔اور ادھر ناظرین کی تو کیا ہی بات ؛انھوں نے تو ہمیشہ داد دی ہے، اب بھی دیں گے۔ وہ ایکٹرسوں کےآنسوؤں پر بھی خوش تھے ، تو اب بندوقیں چلانے پر بھی واہ واہ کریں گے۔ 'بڑی' سکرین پراسلامائزیشن پر بھی پُر جوش تھے، تو 'وقفے' کے بعد لبرلزم پر بھی راضی۔ بس چابی گھمانے کی دیر ہوتی ہے۔
آئی ایس پی آر کے بینر تلےاس با ر ایک 'فیمنسٹ' ڈرامے میں اب مردوں کے بعد عورت کی ’صف بندی‘کی گئی ہے، اور اس کو صنفِ نازک سے ایک دم اپ گریڈ کر کے 'صنفِ آہن' کے طور پر پیش کیا جا رہا ہےکہ ہماری خواتین فوج تلے(شرط ہے) بلند حوصلے کے ساتھ اور آہنی کام کر سکتی ہیں۔ فیمیلز اور آرمی کے حسین گلیمر امتزاج کے علاوہ ڈرامے کے مختلف کرداروں کے ذریعے اس بات کا بھی پیغام ہے کہ امیر،غریب، پنجابی، بلوچ، مسلم، نان مسلم سب ایک پرچم(اور بوٹوں) کے سائے تلے ایک ہیں۔
یہ بات درست ہےکہ خواتین کو فوج میں جگہ دی جارہی ہے اور یہ بھی ہے کہ آرمی فِی الوقت ایک ادارہ ہے جہاں عمومی طور کسی تعصب کی گنجائش کم ہےکہ یہ ادارے کے ڈسپلن کے لیے بھی لازمی بات ہے۔ خواتین کا دیگر شعبوں کی طرح ملٹری میں بھی بھرتی ہونا آج کل کے زمانے میں دنیا بھرکی افواج کی طرح ایک لازمی ضرورت ہے،لیکن ہمارے ہاں اس چیز کو بھی گلیمرائزکیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ابھی تک فیمیلز، آرمی کے طب کے شعبہ سے ہی بنیادی طور پر وابستہ ہیں جو ویسے بھی خواتین کا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ لیڈی فورس کا استعارہ، پہلی کرنل کمانڈنٹ کرنل نگار جوہر بھی میڈیکل کارپز سے ہی وابستہ ہیں۔
تُرک صدر ایردوان کی پھونک کے بعد اپنے وزیرِاظم عمران خان بڑبڑاتے رہ گئے کہ یہاں بھی ارطغرل کی طرز پر ڈرامے بنائے جائیں، لیکن پتہ چلا کہ میدانوں اور کھلیانوں تو کیا، یہاں پروڈیوسرز کھڑکیوں کے باہر بھی شوٹ کے لیے تیار نہیں کہ نہ ان کے پاس اتنا پیسا ہے اور نہ مانگ، تو وہ بددستور 'سابقہ' صنفِ نازک کو ہی رُلا رُلا کر پیش کر رہے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ اب اس ڈرامے کے بعد عورت لوہا بن کران دروازوں ،کھڑکیوں کو کم سے کم توڑنا شروع کر دے!
حکومت بیچاری بھی صرف بیرونی امداد سے ارطغرل ٹائپ بڑا اور 'آؤٹ ڈور' ڈرامہ پیش کر سکتی تھی۔ بیرونی امداد بھی صرف سعودی ملنی تھی جو اُنہوں نے بابر اور اکبر کے بجائے'سعود' کی شرط پر ہی دینی تھی۔ مملکت میں جہاں بجٹ اور وسائل ہیں، وہاں سے ہی کسی 'کھرے' ڈرامے کا آنا ممکن تھا۔ آئی ایس پی آر کو سلام ہے کہ جب مَردوں تک کو َباورچی خانوں اور باتھ روموں میں گُھسایا جا رہا تھا تو انھوں نے خواتین کو غاروں اور پہاڑوں پر لا کر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ زندہ باد! ممکن ہے کہ شاہینہ کو پہاڑوں پر بسیرا کرتے دیکھ کر وزیرِاعظم کی بھی کچھ نہ کچھ تسلی ہو جائے۔
صنفِ آہن ڈرامے کے لیے سب سے بڑی پروڈکشن کمپنی کا اشتراک ، سب سے بہترین جانے والےڈائریکٹر اور رائٹر ندیم بیگ اور عمیرا احمد ، ٹاپ کی اداکارائیں کبری خان، رمشا خان ، سائرہ یوسف وغیرہ کی کاسٹ، ساتھ میں نظر بٹو کے طور پر اظفر رحمان۔ ایسے ہائی پروفائل اور وی آئی پی ڈرامے، اور خاص کر خواتین کی 'بحفاظت' اصلی آؤٹ ڈور عکس بندی عسکری ونگ تلے ہی ممکن ہے۔ اس غیر معمولی بجٹ کے پراجیکٹ کے سپر ہٹ ہونے بلکہ منافعے میں جانے میں کوئی شک نہیں ۔اب پھر کوئی سر پھرا اس پر بھی پیٹیشن نہ ڈال دے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں عورت بہت پُرعزم اور با حوصلہ ہے ۔ اپنی ذاتی زندگی اور خوشی کی پروا کیے بغیر خاندانوں کو بچانے کی خاطر اس نے بہت ظلم سہا ہے۔ نہ صرف گھروں، بلکہ اپنے انتہائی محدود کیے گئے کردار کے باوجود معاشرے میں بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھا کراور جدو جہد کر کے اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ واقعی ہی آہنی کردار کی مالک ہے۔ ماضی کی اور سیاسی خواتین کو چھوڑ کر آج بھی ملالہ یوسفزئی، آمنہ تاثیر،ریحام خانِ، ، فرزانہ بزنچو، آمنہ جنجوعہ، عاصمہ شیرازی اور دوسری بہت سی خواتین عزم و ہمت کے ساتھ ڈٹی رہی ہیں۔ البتہ 'اصلی' میدان میں ہونے اور خاص کر اختلاف رائے کی بنا پر ان کو صنفِ ڈائن بنا کر پیش کیا جاتاہے ۔ جبکہ پروش جمال،ماہ جبیں مستان کے فینٹیسی کرداروں کوصنفِ آہن۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی بہت اچھا!
ویسے تو نام ہی کافی ہے ،لیکن حکومت کو پھر بھی چاہیئے کہ ا ڈرامے کی پروموشن میں بقدر جثہ حصہ لے۔ مہنگائی کے ہاتھوں آئندہ الیکشن میں ووٹوں کی کمی کے خطرے کو وہ سمندر پار پاکستانیوں اور نئے کردار میں ڈھلی آدھی آبادی کو متاثر کر کے پوری کرنےکی کو شش کرے،بلکہ ایک قدم آگے جاتے ہوئے خواتین پروموشن کو صحیح معنوں میں لے جاتے ہوئے اگلی فائل میں 'ایکس' عین، غین یا ف کے بجائے کسی ماہ جبیں ۔پری وش کو موقع دے ،تو بہت اچھا ہے۔