پاکستان کی سپریم کورٹ نے 15 نومبر 2024 کو پانچ سال گیارہ ماہ کے وقفے کے بعد از خود نوٹس کیس نمبر 2/2018 کی سماعت کی، جو پاکستانی شہریوں کے غیر ملکی اکاؤنٹس/اثاثے رکھنے اور انہیں ظاہر نہ کرنے یا ان پر ٹیکس ادا نہ کرنے سے متعلق ہے۔ یہ کیس یکم فروری 2018 کو شروع ہوا، اور اس کی آخری سماعت 14 جنوری2019 کو ہوئی تھی۔
آئینی بینچ نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو دو ہفتے کے اندر رپورٹس جمع کرانے کا حکم دیا۔ کئی سماعتوں، کمیٹیوں کی تشکیل، ماہرین بین الاقوامی قوانین، بدعنوانی اور ٹیکس فراڈ سے متعلق معاہدوں، مالیاتی، کاروباری اور دیگر افراد کی مدد لینے کے باوجود، اس کیس کا آج تک فیصلہ نہیں ہو پایا، اور نا ہی پاکستانیوں کے غیر ممالک میں موجود غیر قانونی اور غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کی بازیابی میں کسی قسم کی پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کی تفصیلات 6 اپریل 2024 کو شائع ہونے والے ایک کالم میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
از خود نوٹس کیس نمبر 2/ 2018سے 7 سال قبل سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر محمد علی درانی نے دستور پاکستان کے آرٹیکل 184(3) کے تحت آئینی درخواست نمبر 72/2011دائر کی، جس پر یکم فروری 2018 تک کوئی فیصلہ نا کیا گیا۔ بعد ازاں اس کو از خود نوٹس کیس کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔
15 نومبر 2024کو محمد علی درانی نے اپنے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے آئینی بینچ سے درخواست کی کہ وہ نئے وکیل کی تقرری کے لیے کچھ وقت چاہتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس میاں اللہ نواز، جنہوں نے ان کی جانب سے درخواست دائر کی تھی، اب صاحب فراش ہیں۔
از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے 12 جون 2018 کے حکم نامے[2018 PLD Supreme Court 686] میں حکومت کی جانب سے، بیرون ملک چھپائے گئے قومی دولت سے لوٹے ہوئے اثاثے اور غیر ٹیکس شدہ دولت واپس لانے یا ٹیکس وصول کرنے، مجرموں کو بے نقاب کرنے اور انہیں سزا دینے کی بجائے،ٹیکس ایمنسٹی کا ذکر تو ہے، لیکن عدالت عظمیٰ نے اس پر نا کوئی مہر اثبات ثبت کی اور نا ہی اس کی آئینی حیثیت پر از خود نوٹس لیا، یا کسی طرح کی رائے دی۔
حقیقت یہ ہے کہ محمد علی درانی کی آئینی درخواست کے دائر ہونے کے 7 سال بعد اور ازخودنوٹس کیس نمبر 2/ 2018 کی موجودگی میں، غیر آئینی قوانین کے ذریعے بدعنوان افراد اور ٹیکس چوروں کو غیر معمولی تحفظات اور معافیاں دی گئیں۔ ان قوانین میں "مکمل رازداری" کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ یہ سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن نے 2018 اور پھر پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے دوران 2019 میں کیا گیا۔
وہ قوانین جو غیر قانونی /غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کی ٹیکس معافیوں سے متعلق ہیں، اور جو از خود نوٹس کیس نمبر 2/2018 کی سماعت کے دوران نافذ کیے گئے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973کے دستور کے تحت کئی وجوہات کی بنا پر پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں ان کو محمد علی درانی نے آئینی درخواست نمبر 72/2011 میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج بھی کیا، لیکن اس کیس کی آخری سماعت 14 جنوری 2019 تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کیس کو اب آئینی بینچ نے 15 نومبر 2024 کو دوبارہ سننا شروع کیا اور دو ہفتوں یعنی 3 دسمبر2024 تک ایف بی آر اورایف آئی اے سے رپورٹس طلب کرکےاس کو ختم کر دیا۔
اس بات کا اظہار سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس نمبر 2/2018 کی پہلی سماعت کے دوران کیا:
"یہ کئی سالوں سے عام علم ہے کہ پاکستان کے کئی شہری، جو پاکستان میں مقیم ہیں اور غیر ملکی ممالک میں اکاؤنٹس رکھتے ہیں، ان اکاؤنٹس کو پاکستان کے قوانین کے تحت متعلقہ حکام کو ظاہر نہیں کرتے یا ان پر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ابتدائی طور پر ایسا لگتا ہے کہ یہ رقم غیر قانونی طریقوں سے ٹیکس ادا کیے بغیر نکالی گئی ہے اور یہ یا تو ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی دولت یا عوامی معاہدوں سے ملنے والی رشوت کی شکل میں ہے۔ ایسی رقم معاشرتی عدم مساوات، ناہمواری اور فرق پیدا کرتی ہے، جو اقتصادی سرگرمیوں اور ترقی کو متاثر کرتی ہے، اور یہ قومی دولت کی لوٹ مار اور چوری کو ظاہر کرتی ہے"۔
قوم لوٹی ہوئی دولت کی واپسی چاہتی ہے، نہ کہ صرف لوٹ مار کرنے والوں کو جیل میں ڈالنا، بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دینا یا علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینا، اور آخرکار مقدمات کو ختم کر دینا۔
محمد علی درانی کی 13 سال پہلے دائر شدہ آئینی درخواست اور 6 سال سے زائد عرصہ قبل شروع ہونے والے از خود نوٹس کیس نمبر 2/2018 کے حوالے سے ابھی تک غیر ٹیکس شدہ اور/یا لوٹی ہوئی قومی دولت کی بازیابی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
مالی جرائم کے مقدمات میں اصل مسئلہ لوٹی ہوئی دولت/ رقم کی واپسی اور غیر ٹیکس شدہ اثاثوں پر ٹیکس کا ہوتا ہے۔ یہ اقدامات اس وقت بھی نہیں کیے گئے،جب سپریم کورٹ نے 2010 میں اپنے ایک فیصلے میں اس وقت کے اٹارنی جنرل کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔
یہ کیس پاکستان کے سوئٹزر لینڈ کی عدالت سے 60 ملین امریکی ڈالر کے دعوے کو واپس لینے سے متعلق [2010 PLD Supreme تھا، جس کا ذکر ڈاکٹر مبشر حسن اور دیگر بمقابلہ وفاقی حکومت اور دیگر کیس (Court 265) کے پیرا 177 سے 179 میں کیا گیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ 14 سال گزرنے کے باوجود عدالت عظمیٰ کا یہ حکم لاگو نہیں ہو سکا۔ جن کی رقم کی واپسی کا معاملہ تھا، وہ ایک بار پھر آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پاناما، بہاماس، پیراڈائز، سوئس اور دبئی لیکس کے بعد اور دنیا کے بدلتے ہوئے منظرنامے کے تحت، بہت سے ممالک نے ایک دوسرے سے معلومات کے تبادلے کا آغاز کیا اور ٹیکس چوری، قومی دولت کی لوٹ مار، عوامی فنڈز کی لوٹ، بدعنوانی، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ بدقسمتی سے اس کے بر عکس پاکستان میں اثاثوں کے سفید کرنے کی اسکیمیں پیش کی گئیں، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔
یاد رہے 4 اکتوبر 2018 کو ایک پریس کانفرنس کے دوران، اس وقت کے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے احتساب نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے شہریوں کی 10,000 سے زائد جائیدادوں کی تفصیلات دبئی اور انگلینڈ میں پتہ چلائی گئی ہیں اور اسے "ایک بڑی کامیابی" قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا: "ہم نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بیرون ملک بھیجا گیا پیسہ واپس لایا جائے"۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دریافت شدہ اثاثوں کو دو زمرے میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ ایک سرکاری عہدے داروں کے اثاثے اور دوسرے عام شہریوں کے اثاثے۔
پاکستانیوں کی جانب سے دوسرے ممالک میں چھپائی گئی لوٹی ہوئی/چوری شدہ/غیر ٹیکس شدہ دولت کی واپسی کے حوالے سے بحث نے شدید بحث و مباحثہ اور تلخ تنازعات کو جنم دیا، خاص طور پر اس وقت جب نئی وفاقی کابینہ نے 20 اگست 2018 کو اپنے پہلے ہی اجلاس میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی، جس کی صدارت اس وقت کے وزیرِ اعظم نے کی۔ پریس میں جنم لینے والے تنازعات اور بحثوں میں سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کی طرف سے بیان کیے جانے والے اعداد و شمار اور فنڈز کی بازیابی کے لیے مختلف قوانین، طریقہ کار اور طریقوں کے استعمال پر سوالات اٹھائے گئے۔ یہ مسئلہ سپریم کورٹ کے از خود ایکشنپر، جو یکم فروری 2018 کو غیر ملکی اثاثوں پر لیا گیا تھا، کے بعد ٹی وی ٹاک شوز میں مقبول ہوا، مگر اثاثوں کی واپسی کا قانونی معاملہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔
8اگست 2018 کو صحافی زاہد گشکوری کی اخباری رپورٹ میں غیر ملکی اثاثوں کا تخمینہ 43 ٹریلین روپے لگایا گیا تھا، جس نے شدید بحث کو جنم دیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں ایف آئی اے، سٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور دیگر اداروں کی طرف سے جمع کرائی جانے والی رپورٹوں کا حوالہ دیا جن کو آج تک عوام کے لئے ظاہر نہیں کیا گیا۔
بہت سے افراد کے لیے 43 ٹریلین روپے کا تخمینہ انتہائی مبالغہ آمیز تھا۔ انہوں نے اسے اس وقت کی ریکارڈ شدہ جی ڈی پی تقریباً 286.7 ارب ڈالر سے موازنہ کیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ نقاد اس بات کو نظر انداز کر رہے تھے کہ پاکستان کی متوازی معیشت کا حجم کتنا بڑا ہے، جو ہر سال 10 سے 12 ارب ڈالر تک کی بیرون ممالک روانگیاں (outward remittances) پیدا کر رہی تھی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ صرف مالی سال 2017-18 میں غیر ملکی اکاؤنٹس سے بیرونی رقوم کی ترسیل 15.25 ارب ڈالر تھی۔
اگر اوسطاً سالانہ 10 -8 ارب ڈالر صرف غیر ملکی کرنسی کے اکاؤنٹس سے بیرون ملک بھیجے جاتے رہے تو 1992 میں "پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ" کے نفاذ سے لے کر 2018 تک اس مجموعی رقم کا تخمینہ 96/160 ارب ڈالر سے کم نہ تھا۔ تقریباً اتنی ہی رقم غیر بینکنگ چینلز (non- banking channels) یعنی ایکسچینج کمپنیز کے ذریعے بیرون ملک بھیجی گئی، جس کا فائدہ "فارن کرنسی اکاؤنٹس (پروٹیکشن) آرڈیننس، 2001" کے تحت اٹھایا گیا۔ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے رقوم کی ترسیل اس کے علاوہ تھی۔
یاد رہے 2013 میں پاکستان کے سینیٹ نے قومی اسمبلی کو مالیاتی بل 2013-14 کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا تھا کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یہ اجازت دے کہ وہ پاکستانیوں کے غیر ملکی اکاؤنٹس میں موجود پیسوں کی تفصیلات حاصل کر سکے۔ تاہم، قومی اسمبلی جس کے پاس آئین کے تحت منی بل (Money Bill) پاس کرنے کا اختیار تھا، نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ حتیٰ کہ از خود نوٹس کیس نمبر 2/2018 کے بعد بھی ریاستی اداروں کی مسلسل غفلت، خاص طور پر پارلیمنٹ کی طرف سے حفاظتی قوانین کو ختم کرنے میں ناکامی جاری رہی۔ ہمارے قانون سازوں نے پاناما، بہاماس پیراڈائز، دبئی لیکس کے بعد بھی غیر آئینی معافیوں کی پیشکش کی۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے مالیات، ریونیو اور اقتصادی امور نے 28 جولائی 2015 کو لندن میں ہوٹل خریدنے کے لیے غیر ملکی ترسیلات زر کے مسئلے کو اُٹھایا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان سے بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے موجودہ ضوابط اور ترسیلات زر کی حدود کے بارے میں پوچھا۔ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ سٹیٹ بینک نے 24 اگست 2015 کو سینیٹ کمیٹی کو اپنے خط میں بتایا کہ ایک امیر پاکستانی شخص اور اس کے بچوں کی جانب سے بیرون ملک سرمایہ کاری کی درخواست متعلقہ قوانین اور پالیسیوں کے تحت زیر کبھی بھی زیر غور نہیں لائی گئی۔
سٹیٹ بینک نے سینیٹ کی کمیٹی کو اطلاح دی کہ 5 ملین امریکی ڈالر یا اس سے زیادہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے اقتصادی کوآرڈینیشن کمیٹی کی منظوری ضروری تھی۔یہ بات اسٹیٹ بینک نے 2018 میں از خود نوٹس کیس نمبر 2 کے جواب میں سپریم کورٹ کو نہیں بتائی جس پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔
15فروری 2018 کو از خود نوٹس کیس نمبر 2/2018 کی پہلی سماعت کے دوران جیسا کہ توقع تھی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے غیر قانونی اثاثہ جات کی بیرون ممالک واپسی کے لئے لاچاری کا اظہار کرتے ہوئے، یہ دعویٰ کیا کہ "موجودہ قوانین ہی ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں"۔ عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کو موجودہ قوانین میں خامیوں کو دور کرنے کی کبھی تجویز نہیں دی اور نہ ہی قومی خزانے کو غیر ضروری بیرون ملک ترسیلات سے پہنچنے والے نقصان کو روکنے کے لیے نئے قوانین بنانے کا کہا۔ پارلیمنٹ کا اس معاملے میں خاموش کردار کیوں تھا ؟ قومی معیشت برباد ہو رہی تھی اور غیر قانونی طور پر پیسہ باہر منتقل ہو رہا تھا مگر سب ادارے چپ تھے! اس سب پر تفصیل سے بحث ایک مضمون میں کی گئی تھی، جو 9 فروری 2018 کو بزنس ریکارڈر میں شائع ہوا۔
9جنوری 2018 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات کی ایک سماعت میں ایف بی آر کے ترجمان نے کہا کہ "سوئٹزرلینڈ کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدے کے تحت پرانے کیسز کی معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں، لیکن ہم اپنی پوری کوشش کریں گے کہ پچھلی معلومات بھی حاصل کر سکیں، خاص طور پر سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کی تفصیلات"۔ ایف بی آر نے نہ تو عوامی طور پر اور نہ ہی سپریم کورٹ کے سامنے یہ بتایا کہ نظرثانی شدہ معاہدے کے تحت کتنی درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور ان پر سوئٹزرلینڈ کی حکومت کا کیا ردعمل تھا۔
ایف بی آر کے ترجمان نے سینیٹ کو بتایا: "ہم نے سوئس حکومت سے درخواست کی ہے کہ پاکستان کا نام معلومات کے تبادلے کے لیے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے، جس کی سوئس پارلیمنٹ نے منظوری دی ہے۔" یہ بات عجیب ہے کہ حکومت نے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ نظرثانی شدہ ٹیکس معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنے میں اتنا طویل وقت لیا، اور اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی وہاں چھپائی گئی رقم کی تفصیلات حاصل کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایک مضمون (سوئس کی مدد سے، ڈان، 11 اکتوبر 2010) میں یہ بات اٹھائی گئی کہ "ہمارے قریب، بھارتی حکومت نے پہلے ہی سوئس بینکوں میں پڑی اپنی شہریوں کی چھپی ہوئی، ناجائز دولت کی واپسی کے لیے اقدامات اٹھا لیے ہیں۔ جب سے یہ رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ بھارتیوں کے ٹیکس ہیونز جیسے لِشٹنسٹین(Liechtentein) میں اکاؤنٹس ہیں اور امریکہ جیسے ممالک نے ان اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کی ہے، نئی دہلی سوئس بینکوں سے فنڈز واپس لانے کے لیے پرعزم کام کر رہا ہے"۔ یہ تجویز دی گئی کہ "سوئس حکام سے رجوع کرنے سے پہلے پاکستانی حکومت کو اثاثوں کی ضبطی کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ تمام غیر ظاہر اور غیر ٹیکس شدہ اثاثے ضبط کیے جا سکیں۔ سوئس بینکوں میں پڑی رقم کے لیے سوئٹزرلینڈ سے معلومات آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں"۔
جیسا کہ توقع تھی، اوپر دی گئی تجویز ہماری حکومتوں اور پارلیمنٹ کی نظر سے اوجھل رہی یا اس کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ایف بی آر نے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ٹیکس معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے لیے ایک سمری پیش کی، لیکن مخلوط حکومت نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ کم از کم تین سمریاں وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں، لیکن انہیں نظرانداز کر دیا گیا۔ اس کی وجہ پر تفصیل سے بحث 'سوئس پیسہ کی واپسی' کے عنوان سے بزنس ریکارڈر میں 25 جولائی 2014 کو کی گئی اور ایک مضمون میں بھی ذکر کیا گیا۔
اس دوران آصف علی زرداری نے اپنے 60 ملین ڈالر سوئس بینکوں سے منتقل کروا لیے، مگر قوم کو تا حال نہیں بتایا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اور اس پر پاکستان یا کہیں اور کتنی ٹیکس ادائیگی کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک ان کی طرف سے اس بات کی کوئی تردید نہیں کی گئی کہ وہ اس پیسے کے مالک نہیں تھے، جیسے نواز شریف کے کیس میں ہے، جنہوں نے لندن میں اپنی بیٹے کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادیں رکھنے کا اعتراف کیا جب وہ نا بالغ اور ان کے زیر دست تھا، لیکن پیسے کی ترسیل (trail) ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے منتخب کردہ نام نہاد ماہر شہزاد اکبر، جو کچھ وقت کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ کام کر چکے تھے، انہیں پاکستان کے دستخط شدہ دو طرفہ/کثیر الجہتی ٹیکس معاہدوں کے تحت بیرون ملک سے فنڈز کی واپسی کے بارے میں کوئی ٹھوس علم یا عملی تجربہ نہیں تھا۔ وہ (میوچل لیگل اسسٹنس MLA) یا سٹولن ایسٹ ریکوری (StAR) کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے تھے، جو کہ ورلڈ بینک گروپ اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم(UNODC) کے درمیان شراکت داری ہے، اور اس کا مقصد بدعنوانی کی دولت کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرنا ہے۔
غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کی واپسی کا سب سے قابل عمل طریقہ OECD کے ملٹی لیٹرل کنونشن (MLI) کا استعمال ہے، جس پر پاکستان نے 14 ستمبر 2016 کو دستخط کیے تھے۔ اس سے ایف بی آر کو یکم ستمبر 2018 سے پاکستانیوں کے آف شور اکاؤنٹس/اثاثوں کے بارے میں باضابطہ معلومات حاصل کرنے کی اجازت مل گئی۔
ہم ابھی بھی سوئس ٹیکس ایڈمنسٹریٹو اسسٹنس ایکٹ 2012 (TAAC) کا استعمال کر سکتے ہیں، جو تمام ممالک کو ٹیکس چوری کرنے والوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک، امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے "ٹیکس معاہدوں" کے ذریعے اربوں کی رقم واپس حاصل کی ہے تاکہ ماضی میں چوری کی گئی دولت کی واپسی ہو سکے۔یہ اقدام مستقبل میں ایسی کسی بھی ممکنہ کمی کو روکنے کے لیے بھی تھا۔ اس تناظر میں غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کی واپسی کے لیے بحث اور اقدامات ہمارے مباحثے سے یکسر غائب ہیں۔
اوپر بیان کردہ راستے پر عمل کرنے کی بجائے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی زیر قیادت، اثاثے سفید کرنے اور ٹیکس معافیوں (amensties) کا سہارا لیا، حالانکہ برطانیہ اور دیگر ممالک سے قابل عمل معلومات حاصل کی جا چکی تھیں۔ صرف 5,363 افراد نے "فارین ایسٹس (ڈیکلریشن اینڈ ریپیٹری ایشن) ایکٹ 2018" کا فائدہ اٹھایا، جس کے تحت انہوں نے 1,009 ارب روپے کے غیر ملکی اثاثے ظاہر کیے اور ان پر 375.5 ملین ڈالر ٹیکس ادا کیا۔
7 نومبر 2019 کو ایف بی آر نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مالیات و محصولات کے سامنے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کی حکومتوں نے 2018 اور 2019 میں اپنی معافی اسکیموں کے تحت 191 ارب پتی افراد کو 61.4 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا، جنہیں غیر ظاہر شدہ آف شور اثاثوں کے مالک ہونے کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔
اگرچہ ایف بی آر نے فائدہ اٹھانے والوں کے نام ظاہر نہیں کیے (کیونکہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کی دونوں حکومتوں نے فائدہ اٹھانے والوں کے ناموں کو خفیہ رکھنے کے لیے قانونی تحفظ فراہم کیا تھا)، تاہم ایف بی آر کے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل، محمد اشفاق نے یہ اعتراف کیا کہ ان کے خلاف او ای سی ڈی کے خودکار معلومات کے تبادلے (AEOI) کے تحت واضح معلومات موجود تھیں۔
او ای سی ڈی کے ڈیٹا بیس میں نامزد 135 افراد نے پی ایم ایل این کی 2018 کی ٹیکس معافی سکیم کا فائدہ اٹھایا اور 62.4 ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے۔ انہوں نے صرف 2.9 ارب روپے ٹیکس ادا کیا، حالانکہ ان کی اصل واجبات ٹیکس معافی کے بغیر 43.7 ارب روپے ہو سکتی تھیں، اس طرح انہیں سے 40.8 ارب روپے کی ریلیف ملی۔
او ای سی ڈی کے ذریعے شیئر کی جانے والی معلومات کے مطابق، 56 افراد نے پی ٹی آئی کی ٹیکس معافی اسکیم کا فائدہ اٹھایا اور 31.8 ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے۔ انہوں نے صرف 1.7 ارب روپے ٹیکس ادا کیا اور انہیں 20.6 ارب روپے کی ریلیف ملی۔
باقی کیسز میں محمد اشفاق نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر نے 115 کیسز کا جائزہ لیا، 4 ارب روپے کا مطالبہ کیا اور 1 ارب روپے وصول کیے۔ مجموعی طور پر 325 کیسز میں، جن میں او ای سی ڈی کے ذریعے 5.5 ارب ڈالر کے غیر ملکی اثاثے پکڑے گئے، صرف 5.6 ارب روپے ٹیکس وصول ہوئے، جو کہ 0.64 فیصد اثاثوں کی واپسی تھی۔
محمد اشفاق نے انکشاف کیا کہ فائدہ اٹھانے والوں میں کچھ سیاستدان بھی شامل تھے، لیکن وہ "عہدے داروں" کی تعریف میں نہیں آتے جو پیسہ صاف کرنے کی سکیموں میں فراہم کی گئی تھی! اس لیے ان کے معاملے میں بدعنوانی کو 10 سال کے بعد پیسہ صاف کرنے کی اسکیموں کے تحت قانونی حیثیت دی گئی، حالانکہ قومی احتساب بیورو آرڈیننس 1999 کے مطابق اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا۔
پی ٹی آئی کی حکومت پہلے یہ فخر سے دعویٰ کر رہی تھی کہ اسے 57,450 پاکستانی شہریوں کے 152,000 بنک اکاؤنٹس کی معلومات حاصل ہوئی تھی، جن میں 7.5 ارب ڈالر کی بنک ڈپازٹس موجود تھیں۔ ان معلومات کا زیادہ تر حصہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے حاصل کر لیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے، کئی افراد کے خاص طور پر شبر زیدی، جو اس وقت ایف بی آر کے چیئرمین تھے، کے اصرار پر معافی دینے سے پہلے بار بار یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ لوٹی ہوئی اور غیر ٹیکس شدہ رقم واپس لائی جائے گی۔ بعد ازاں، انہوں نے لوٹ مار کی قوتوں کے سامنے سر جھکا دیا۔
ٹیکس معاہدوں کے ذریعے امریکہ نے سوئس بینک کے کلائنٹس سے 11 ارب ڈالر سے زائد کی پچھلے ٹیکسز اور جرمانوں کی وصولی کی اور وکلا اور دیگر سہولت کاروں کو سزا دینے کے لیے دستاویزی شواہد حاصل کیے۔ ہم نے 2014 میں سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ٹیکس معاہدے کی نظرثانی کے دوران ایسی ہی بازیابیاں حاصل کرنے کا موقع کھو دیا۔ 2014 کے بعد، پاکستانیوں نے سوئٹزرلینڈ سے کئی آف شور مراکز میں بڑے فنڈز منتقل کیے گئے—اس بارے میں تفصیلات 'پاکستانی نقدی سوئس بینکوں سے نکالی گئی'، دی ایکسپریس ٹریبون، 22 فروری 2017، 'خفیہ سوئس بینکوں پر نئی کارروائی'، انڈیپنڈنٹ، 3 جنوری 2017 اور 'ایچ ایس بی سی فائلز: سوئس بینک نے مشتبہ مجرموں کے لیے پیسہ چھپایا'، دی گارڈین، 12 فروری 2015 میں دستیاب ہیں۔
آگے کا راستہ یہ ہے کہ او ای سی ڈی کے 'ملٹی لیٹرل انسٹرومنٹ' کا صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تاکہ غیر ملکی ممالک میں چھپائے گئے اثاثوں کے مقابلے میں ٹیکس کی چوری کی وصولی کی جا سکے۔ عوامی عہدے داروں کی بدعنوانی سے حاصل شدہ پیسہ کی واپسی کے لیے اقوام متحدہ کے کنونشن اگینسٹ کرپشن (UNCAC) کے تحت طریقہ کار اپنایا جا سکتا ہے۔اس بارے میں تفصیلات 'لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی' پر درخواست کے متن میں دستیاب ہیں۔
ایف بی آر اور ایف آئی اے کو ازخود نوٹس کیس نمبر 2/2018 اور آئینی درخواست نمبر 72/2011 کی اگلی سماعت پر مذکورہ بالا حقائق عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کرنے چاہییں۔
وقت آ چکا ہے کہ عدالت عظمیٰ متعلقہ اداروں کو قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا حکم دے۔ بحیثیت قوم ہم کو محض ماضی کی غلطیوں پر افسوس نہیں کرتے رہنا چاہیے۔ جبکہ کئی ممالک نے دو طرفہ معاہدوں، کثیر الجہتی اقدامات اور خصوصی ایجنسیوں کی مدد سے ماضی میں لوٹی گئی دولت اور غیر ٹیکس شدہ رقوم کو باقاعدہ بنایا ہے، اور ہم ابھی بھی اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ ان افراد کے سامنے مزید کس طرح سر جھکا دیں جنہوں نے مسلسل ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کی، اپنے وسائل سے زیادہ اثاثے تخلیق کیے اور ہمیشہ عوام دشمن قوانین اور/یا بار بار کی معافیوں کے تحت سزا سے بچنے میں کامیاب رہے۔