پی ٹی آئی مظاہرین پر تشدد کے بعد عوام کی اسٹیبلشمنٹ سے نفرت مزید بڑھ گئی

سیاسی ورکرز کے ساتھ اس خون آشام نظام نے جو کر دیا ہے اس کے بعد اس نظام، اس ہئیت مقتدرہ، اس سول اور ملٹری بیوروکریسی اور ان کے کٹھ پتلی سیاست دانوں کے خلاف عوام کے دلوں میں صرف اور صرف نفرت ہی رہ گئی ہے، باقی سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔

10:02 PM, 3 Dec, 2024

حسنین جمیل

وطن عزیز کا 77 سالہ سیاسی نظام ایک ایسی خون آشام ڈائن کا روپ دھار چکا ہے جو 77 سال سے اپنی ہی اولاد کا خون چوس چوس کر اس قدر ڈراؤنی بن چکی ہے کہ اب اس کے سامنے جو بھی آتا ہے وہ اپنے نوکیلے دانت اس کی گردن پر گاڑ دیتی ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں کوئی پچھتاوا نہیں آتا۔

قیام پاکستان کے چند سال بعد سے ہی اس ریاستی نظام کو اپنی ہی اولاد کا خون پلانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کو دبایا گیا اور آزادی اظہار پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ حسن ناصر پاکستان کا پہلا شہید تھا جسے جنرل ایوب خان کی آمریت نے شاہی قلعہ لاہور میں تشدد کر کے مارا تھا۔ اس سارے واقعے کا احوال میجر اسحاق نے اپنی کتاب میں قلم بند کیا ہے۔

اس سے پہلے بائیں بازو کے دانشوروں اور کارکنوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، حمید اختر جیسے دانشوروں کو راولپنڈی سازش کیس میں پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی ساری روداد حمید اختر صاحب نے اپنی کتاب 'کال کوٹھری' میں سپرد قلم کی ہے۔

سجاد ظہیر اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ رہائی کے بعد ہندوستان واپس چلے گئے۔ یہی کچھ ساحر لدھیانوی اور قرۃ العین حیدر نے بھی کیا۔ بلکہ ایک بار راقم کو حمید اختر مرحوم نے بتایا کہ ساحر لدھیانوی نے جاتے جاتے مجھے کہا کہ پاکستان میں بہت جلد فوج، جاگیرداروں اور مولویوں کا گٹھ جوڑ بن جائے گا اور عام آدمی کا استحصال ہو گا۔ یہ ایک شاعر نے 70 سال پہلے کہا تھا جو اب سب کے سامنے ہے۔ اس گٹھ جوڑ میں اب سرمایہ کاروں کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

پھر 1977 میں کیسے ایک بے پناہ مقبولیت کے حامل سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔ اس وقت کی سب سے مقبول ترین جماعت پیپلز پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگایا گیا، اور اب یہی سلوک پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان عمران خان کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔

8 فروری کے انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود اس کی 150 کے قریب نشستوں کو 90 تک محدود کر دیا گیا اور اب جس طرح تحریک انصاف کے کارکنوں پر ریاستی جبر کی انتہا کر دی گئی ہے، ان کے پُرامن دھرنے پر جس طرح سیدھی فائرنگ کی گئی، مبینہ طور پر لاشیں چھپانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کی رپورٹنگ کرنے پر مطیع اللہ جان کو گرفتار کر کے بند کر دیا گیا، لاہور کے کورٹ رپورٹر شاکرعباسی کو بھی اغوا کیا گیا، یہ سب کچھ سچ چھپانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

عمران خان کی شریک حیات بشریٰ بی بی جنوبی ایشیا کی سیاسی روایت کے عین مطابق سیاست میں داخل ہو چکی ہیں۔ اگرچہ اس مارچ سے پہلے سعودی عرب کے حوالے سے ایک متنازعہ بیان دے کر انہوں نے غلطی کی مگر بعد میں جس طرح قافلے کی رہنمائی کی، وہ قابل تعریف ہے۔ بشریٰ بی بی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دھرنا ختم کرنے کے حق میں نہیں تھیں۔

پاکستان کی ہئیت مقتدرہ نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ جو بربریت کی ہے وہ پچھلے 40 سالوں سے بلوچوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کہتی تھی کہ ہمارے جوان واپس نہیں کرنے تو ان کی لاشیں ہی دے دو۔ اب یہی تحریک انصاف کے پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں۔

سیاسی ورکرز کے ساتھ اس خون آشام نظام نے جو کر دیا ہے اس کے بعد اس نظام، اس ہئیت مقتدرہ، اس سول اور ملٹری بیوروکریسی اور ان کے کٹھ پتلی سیاست دانوں کے خلاف پاکستان کے عوام میں صرف اور صرف نفرت ہی رہ گئی ہے، باقی سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔

مزیدخبریں