تعارف میں بتایا گیا تھا کہ اس بات پر دوستانہ ماحول میں بحث ہوگی کہ ان دو حلقوں، دانشور اور فنکاروں میں سے کون ہمارے شہر میں برپا ہونے والے مسائل کا مقابلہ بہتر انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عنوان خوب تھا اور حالات خوب تر۔
مگر افسوس کہ اس شہر نے سر پھرے فنکار و دانشور جننا ہی ختم کر دیے ہیں اور اس بات کا ادراک رات کو ان کا بیانیہ سن کر بخوبی ہو گیا۔
عنوان تھا آج کے مسائل پر لیکن زور اس بات پر دیا جاتا رہا کہ کراچی میں غربت ہے، چوکوں کی رونق کو کیسے بحال کیا جائے یا کچھ کرنے سے گھبرایا کیوں نہ جائے۔ میں در در ٹھوکریں کھاتا صحافی یہ سوچ رہا تھا کہ شاید میں کسی اور شہر میں رہتا ہوں اور یہ بات کرتے ہوئے عاقل، عالم، اور فاضل نفوس کسی اور ہی شہر کے باسی ہیں، شاید یورپ کے کسی ملک کے ترقی یافتہ ملک کے۔
ایک خاتون جو فنکاروں کی جانب سے بات کر رہی تھیں فرمانے لگیں کہ کیسے وہ ایک دن اپنی بلی کو لے کر جا رہی تھیں تو انہوں نے سڑک پر موجود گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہوئے بچوں کو دیکھا۔ وہ بچے بلی کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے جس پر خاتوں نے سوال کیا کہ آخر وہ کراچی زو کیوں نہیں جاتے۔ اور پھر بچوں نے ان سے کہا کہ ہمیں کون لے کر جائے گا۔ بس یہ ایک عظیم مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اور اس مسئلے کی بابت انہوں نے ایک پراجیکٹ کراچی ںمائش میں کام کرنے کا تہیہ کر لیا۔
ایک معروف 'دانشور' نے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان چوک کمیونٹی سینٹر بنایا تاکہ چوک کی رونق بحال ہو سکے اور علاقہ مکینوں کو فائدہ ہو۔
ان تمام لوگوں کا کہنا تھا کہ فنکاروں اور دانشوروں کی جانب سے کی جانے والی یہ 'دخل اندازی' شہر میں بہتری کے لئے ایک قدم ہے اوراس سے وہ درپیش مسائل کا مقابلہ کریں گے۔
یہ باتیں سن کر مجھے ایسا لگا کہ شاید کراچی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں گداگر بچے چڑیا گھر جانے سے قاصر ہیں۔ یا شاید فنکاروں کو لگتا ہے کہ لوگوں کے پاس بیٹھنے اور بات کرنے کے لئے اب چوک موجود نہیں ہیں۔ دل میں بہت سے خیالات آئے، شہر پر ترس بھی آیا کہ بولنے والے ختم ہو گئے اور افتخار عارف صاحب کی زیرِ نظر نظم کانوں میں گونجتی رہی۔
اے شہر رسن بستہ
مدت ہوئی لوگوں کو چپ مار گئی جیسے
ٹھکرائی ہوئی خلقت جینے کی کشاکش میں جی ہار گئی جیسے
ہر سانس خجل ٹھہری بے کار گئی جیسے
اب غم کی حکایت ہو یا لطف کی باتیں ہوں کوئی بھی نہیں روتا کوئی بھی نہیں ہنستا
اے شہر رسن بستہ
یوں لگا جیسے یہ فنکار اور دانشور اپنی اپنی جھینپ چھپا رہے ہوں۔ انہوں نے کچھ بھی تو نہیں کیا۔ انہوں نے کچھ بھی تو نہیں کہا۔ نہ تب نہ اب۔ جب شہر میں آئے دن گھر لٹتے رہے، ماؤں سے ان کے لعل چھینے گئے، اور بوٹوں تلے عصمتیں لٹتی رہیں، ضعیفی زخم کھاتی رہی تب بھی کچھ نہیں کہا گیا۔ کوئی تو نظم کہتا کوئی تو اس معصوم بچی پر فن پارہ بناتا جس کے باپ کی مسخ شدہ لاش ملی تھی، کوئی تو چوک میں لوگوں کو جگاتا، چپ توڑتا۔
کوئی ایک ہی بین کسی کی نقل کر کے کسی ‘خفیہ’ عمارت پر مزاحمتی گرافیٹی کر کے قاتلوں کو ان کی شکل دکھاتا۔ مگر ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ اب کوئی زینِ العابدین جیسا مصور نہیں رہا، کوئی فیض و جالب جیسا شاعر نہیں، کوئی کرشن چندر نہیں، کوئی عبداللہ حسین نہیں۔ ہم لاوارث ہیں۔
آج کے فنکاروں اور دانشوروں نے ظلم نہیں کیا تو اس ظلم کی تائید ضرور کی ہے۔ اس ظلم کے خلاف خاموش رہ کر ظالم کے ساتھ چپ سادھے کھڑے ضرور رہے ہیں۔ طلبہ کی تحریک ہو یا اساتذہ کی، شیعہ مارے جا رہے ہوں یا شہر میں قوم پرست سندھی یا مہاجر لاپتہ کیے جارہے ہوں، لوگوں کے گھر اور دکانیں مسمار کر کے جینے کی آس چھینی جا رہی ہو، یا بلوچ تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے مرنے کے درپے ہوں۔ یہ کون سے فنکار اور دانشور تھے جن کی حساسیت مر کر رہ گئی۔
اعتراض یہ بنتا ہے کہ شاید پھر آپ کو کراچی کے مسائل پر بولنے، اپنی 'پروفائل' بنانے، اور ستائیش کے لئے محافل میں جانے کا بھی کوئی حق نہیں۔ آخر میں بس اس خیال کے سہارے میں نے کوچ کیا کہ شہر کراچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے کہ اسکے نصیب میں آج ایسے فنکار و دانشور آئے ہیں۔