میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے گورنر چوہدری سرور نے امید ظاہر کی ہے کہ مسلم لیگ (ق) اتحادی جماعت ہی رہے گی اور پاکستان تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کے ساتھ آئندہ عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ حصہ لے گی۔
حکمراں جماعت تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے درمیان تنازعات میں اضافہ اس وقت ہوا جب وزیر اعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کو مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے چند پی ٹی آئی رہنما کی شکایات پر مذاکرات سے روکا تھا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے وزیر اعظم سے شکایت کی تھی کہ جہانگیر ترین حکومت سے زیادہ اتحادی جماعتوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ عمران خان نے جہانگیر ترین کے خلاف کسی بھی مسئلے پر شکایت کو سنا ہے اور اپنے قریبی دوست کا نظریہ سنے بغیر ان کے خلاف فیصلہ سنایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو پنجاب کے چند پارٹی رہنماؤں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین نے مسلم لیگ (ق) کے زیادہ تر مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے اور وزیر اعلیٰ کی طرح ہدایات جاری کی ہیں کہ ان پر عمل در آمد کیا جائے، تحریک انصاف کے کیمپ میں موجود چوہدری برادران کے مخالفین نے وزیراعظم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ 'اتنی رحم دلی' دکھانا اور مسلم لیگ (ق) کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنا پارٹی کے مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ چوہدری برادران سمجھدار سیاست دان ہیں، تحریک انصاف کو ان سے نمٹنے میں بھی سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔ جس کے بعد عمران خان نے جہانگیر ترین کی سربراہی میں پینل کو تحلیل کرتے ہوئے اتحادی جماعتوں سے مذاکرات کے لیے نئی کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔
عمران خان نے گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو مسلم لیگ (ق) سے نئے مذاکرات کرنے کی ہدایت دی تھی جبکہ گورنر سندھ عمران اسمعیٰل، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی اور رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کو ایم کیو ایم سے ملاقات کرنے کا کہا تھا۔
جہانگیر ترین کی قیادت میں کمیٹی نے مسلم لیگ (ق) کے 2 پنجاب میں اور ایک مرکز میں وزرا کو بااختیار بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا جس کے علاوہ انہوں نے جماعت کو گجرات، چکوال اور بہاولپور اضلاع سمیت کئی تحصیلوں میں انتظامی اختیارات دینے کا بھی کہا تھا۔
مسلم لیگ (ق) کے ہنگامی پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چوہدری شجاعت نے واضح کیا کہ وہ طے شدہ معاملات کے نفاذ تک حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ اجلاس میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ، رکن قومی اسمبلی مونس الہیٰ اور حسین الہیٰ، سابق سینیٹر کامل علی آغا اور دیگر شریک تھے۔
مسلم لیگ (ق) کے مطابق تمام شرکا نے رضامندی کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو بتایا جائے کہ جب سیاسی معاملات طے ہوجائیں تو اس میں تبدیلی عدم بھروسہ پیدا کرتی ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف سے تحریری معاہدہ کیا تھا جس کے کسی بھی فیصلے پر عمل در آمد نہیں ہوا، جب (جہانگیر ترین کی قیادت میں) دوسری کمیٹی سے معاملات طے ہوگئے تو کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا اور نئی کمیٹی قائم کر دی گئی۔ تحریک انصاف کے چند وزرا اور رہنما ہمارے اور وزیراعظم کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔