ذرائع کے مطابق مریم نواز نے ایک ہفتہ قبل نئے موبائل فون نمبر سے واٹس ایپ کے ذریعے اپنے نظریاتی گروپ میں شامل ہم خیال پارٹی رہنماؤں کے ساتھ رابطے تیز کر دیے ہیں۔ وہ اپنے واٹس ایپ گروپ میں شامل ساتھیوں کے ساتھ مسلسل پیغامات کا تبادلہ کر رہی ہیں۔ انہیں پارٹی پالیسی کے حوالے سے گائیڈ لائن دیتی ہیں کہ میڈیا کے ساتھ بات چیت اور ٹی وی ٹاک شوز میں کیا مؤقف اختیار کرنا ہے۔ مریم نواز کے گروپ میں سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر مشاہد اللہ خاں، سابق گورنر سندھ محمد زبیر، طلال چوہدری اور دانیال عزیز نمایاں ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ رانا ثنا اللہ ٹی وی ٹاک شوز میں مریم نواز کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ مؤقف کو بھی اپنا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پارٹی میں پریکٹیکل سیاست کے علمبردار شہباز شریف گروپ کی لائن بھی toe کرتے رہتے ہیں۔ مریم نواز سمجھتی ہیں کہ نواز شریف نے بطور صدر پنجاب ان کی نامزدگی مزاحمت کی علامت کے طور پر کی تھی لہٰذا رانا ثنا اللہ ہمارا بندہ ہے جبکہ شہبازشریف انہیں اپنا ساتھی شمار کرتے ہیں۔
باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز مجوزہ لندن اجلاس شیڈول ہوتے ہی ایک دم سے متحرک ہو گئی ہیں جس میں پارٹی کے ایک ناراض مرکزی رہنما، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کی پارٹی اور عملی سیاست میں واپسی کا باقاعدہ اعلان متوقع تھا۔ جو پارٹی میں مریم نواز کے سیاسی کردار کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔
شہباز شریف مریم نواز کی حالیہ سرگرمیوں سے لندن اجلاس کے نتیجہ خیز ہونے کے حوالے سے سخت مایوسی کا شکار ہو گئے جس پر انہوں نے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی رانا تنویر حسین اور سابق سپیکر ایاز صادق کو طے شدہ پروگرام کے مطابق گذشتہ جمعرات کو لندن پہنچنے سے روک دیا۔ پارٹی میں اپنے سب سے بڑے ہم خیال چوہدری نثار سے بھی ہنگامی رابطہ کر کے انہیں کہا گیا کہ چوہدری صاحب، ابھی کچھ روز ٹھہر جائیں، ابھی سازگار ماحول نہیں بن رہا۔
ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خاں نے بھی شہباز شریف کے کہنے پر اسی ہفتے لندن کے لئے اڑان بھرنے کی غرض سے سیٹ بک کروا لی تھی۔ البتہ چوہدری نثار عملی طور پر پوری طرح سرگرم ہو چکے ہیں جو پارٹی اور قومی سیاست میں اپنی دوبارہ انٹری کے لئے موزوں لمحے اور ضروری سگنل کے منتظر بتائے جاتے ہیں۔ ذرائع کا خیال ہے کہ مریم نواز ابھی تک اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ترک نہیں کیا جس کی وجہ سے عدالتی ریلیف کی صورت میں ان کے لندن جانے کی راہ ہموار ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ مقتدر حلقوں نے بھی مریم نواز کا نام ای سی ایل سے آؤٹ کروانے میں مدد کا عمل ہولڈ کر لیا ہے۔ مریم نواز کی ایما پر سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور رانا ثنا اللہ ایک دم متحرک ہو کر ٹی وی پر مریم نواز کیمپ کا مؤقف بڑھ چڑھ کر پیش کر رہے ہیں، جس پر شہباز شریف کیمپ کو بھی مزید متحرک ہونا پڑا۔ شہباز شریف کی فوری اور خصوصی ہدایت پر خواجہ آصف کو بھی ملک کے سیاسی منظر نامے پر پھر سے نمودار ہونا پڑا، حتیٰ کہ انہوں نے دو قدم آگے بڑھ کر نواز شریف کیمپ کے بیانیے میں شامل خلائی مخلوق کی نئی تشریح کے علاوہ یہ بیان دے کر نواز شریف کیمپ کو زک پہنچانے کی کوشش کی کہ نواز شریف تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں 93/1992 سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کی زیر قیادت پرو اسٹیبلشمنٹ یا دوسرے لفظوں میں لڑائی کی بجائے اداروں سے بنا کے رکھنے کی سیاست کے حامی پارٹی کے پریکٹیکل گروپ اور مزاحمت کے حامی نظریاتی گروپ کے مابین کشیدگی اور آپسی کھینچا تانی نہ صرف برقرار ہے بلکہ مریم نواز کے بے قابو ہو جانے کے سبب اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس نے اس سارے ارینجمنٹ کو اتھل پتھل کے رکھ دیا ہے جو حتمی، نتیجہ خیز اور ملک کے سیاسی منظر نامے میں کسی تبدیلی کے امکانات قریب لاتا دکھائی دے رہا تھا۔ مگر مریم نواز کی سرکشی شہباز شریف کے سارے منصوبوں کو اسی طرح سبوتاژ کرتی دکھائی دے رہی ہے جیسے نواز شریف کی نااہلی کے بعد مریم نواز نے عین آخری لمحوں میں شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیراعظم نامزد کروا کے پارٹی ہائی کمان کا وہ فیصلہ سبوتاژ کر دیا تھا جس کے تحت نواز شریف اپنی جگہ شہباز شریف کو کرسی پر بٹھانے لگے تھے۔
ادھر اگرچہ شاہد خاقان عباسی جو پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے یوٹرن کے بعد سے شدید ناراض رہنماؤں میں شامل تھے، نواز شریف کی ذاتی درخواست اور خصوصی ہدایت پر دوبارہ فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ تاہم خواجہ سعد رفیق جیسے بعض دوسرے مرکزی رہنما پارٹی قیادت سے ابھی تک سخت ناراض بتائے جاتے ہیں۔