ملک میں جبری طور پر لاپتہ کئے گئے لوگوں کی سراغ رسانی کے لئے بنائے گئے کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں بتایا کہ سال 2020 میں کمیشن کے پاس جبری گمشدگیوں کے کل 415 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سب سے زیادہ کیسز 67 دسمبر 2020 میں رپورٹ ہوئے۔
کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں واضح کیا ہے کہ کمیشن نے گزشتہ سال جبری گمشدگیوں کے 433 کیسز کو بھی نمٹایا ہے ۔
کمیشن نے سال 2020 کے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں کمیشن کے پاس سب سے زیادہ کیسز 67 رپورٹ ہوئی جبکہ جنوری اور فروری میں بدتریج 50 اور 48 کیسز رپورٹ ہوئے۔کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ میں 24، اپریل میں 33، مئی میں 13، جون میں 12، جولائی 43، اگست میں 23، ستمبر میں 34، اکتوبر 45 جبکہ نومبر میں جبری گمشدگیوں کے 23کیسز رپورٹ ہوئی۔
کمیشن کے مطابق سال 2021کے پہلے مہینے میں جبری گمشدگیوں کے کل 23 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
کمیشن نے اپنے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ سال 2019 میں جبری گمشدگیوں کے کل 800 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ اس سال یہ تعداد 415 ہے۔
کمیشن نے اعداد و شمار میں کہا ہے کہ کمیشن گزشتہ نو سالوں میں 6921 جبری گمشدگیوں کے کیسز رپورٹ ہوئی جن میں 2122 افراد کا تاحال سراغ نہیں مل سکا۔
کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں 858 افراد قید ہے جن میں زیادہ تعداد 714 خیبر پختونخوا کے شہریوں کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پنجاب کے شہری ہے جن کی تعداد 86 ہے۔ سندھ کے 37 شہری، اسلام آباد کے 17 آزاد جموں اینڈ کشمیر کے 03،گلگت بلتستان کے 01 شہری فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں قید ہے جبکہ بلوچستان کا کوئی شہری ان مراکز میں موجود نہیں۔
کمیشن نے تشدد زدہ نعشوں کے تفصیل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں گزشتہ 09 سالوں میں 221 جبری طور پر گمشدہ افراد کی نعشیں ملی جن میں سب سے زیادہ تعداد 66 پنجاب کے شہریوں کی ہے، 60 کا تعلق سندھ سے، 55 کا تعلق خیبر پختونخوا سے، 30 کا تعلق بلوچستان سے، 08 کا تعلق اسلام آباد سے جبکہ دو افراد کا تعلق گلگت بلتستان سے ہیں۔
کمیشن نے گھر واپس انے والوں کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں 2198 لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں جن میں زیادہ تعداد696 پنجاب کے شہریوں کی ہے جبکہ سندھ کے 689، خیبر پختونخوا کے 472 ۔ بلوچستان کے 158، اسلام آباد کے 147 شہری اور اے جے کے کے 03 شہری اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ۔
کمیشن نے گزشتہ ایک سال میں 1008 ایسے کیسز کو خارج کیا جو جبری گمشدگیوں کے نہیں تھے اور کمیشن کے ساتھ ان کا اندراج جبری گمشدگیوں کے طور پر ہوا تھا