تفصیلات کے مطابق برٹش ٹیررازم ایکٹ (ٹی اے سی ٹی) 2006 کے سیکشن 1(2) کے تحت الزام کا تعلق دہشت گردی کی حمایت میں جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے سبب دیے جانے والے ایسے بیان سے ہے جو افراد کو بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ایسی کسی کارروائیوں یا جرائم کا ارتکاب کرنے کی حوصلہ افزائی یا اکسانے کا سبب بنے۔
برطانوی پولیس کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو کراچی میں جمع ہونے والے ہجوم کے لیے ایک تقریر کی تھی جس کا مطلب تقریر سننے والے کچھ افراد کی جانب سے ممکنہ طور پر بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشتگردی کی کاروائیوں کی تیاری اور ترغیب کے طور پر سمجھا گیا۔
الزام میں کہا گیا کہ بانی ایم کیو ایم اپنی اس تقریر سے ممکنہ طور پر جان بوجھ کر مجمع کو ایسی کاروائیوں کی ترغیب دینا چاہتے تھے یا پھر انہوں نے اس معاملے میں لاپرواہی اختیار کی کہ ان کی وہ تقریر سننے والوں کو ایسی کاروائیوں پر اکسانے کا سبب بنے گی۔
سماعت کے دوران جیوری کے 12 ارکان نے حلف اٹھایا، انہیں الطاف حسین کے خلاف عائد الزام پڑھ کر سنایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ الطاف حسین نے الزام کی تردید کی ہے۔
جیوری کے اپنی نشستیں سنبھالنے سے پہلے استغاثہ نے بیشتر وقت اپنے الزام کو ثابت کرنے کے لیے جمع کیے گئے ثبوتوں کو پیش کرنے میں صرف کیا۔
شواہد میں اے آر وائے اور سما ٹی وی چینل کے دفاتر سمیت ضیا الدین احمد روڈ پر واقع رینجرز ہیڈ کوارٹر اور پریس کلب کے نقشے بھی شامل تھے۔
تصاویر اور ویڈیو فوٹیج بھی عدالت میں جمع کروائی گئیں اور اس میں سے کچھ عدالت میں چلائی بھی گئیں، ان میں پارٹی کی خواتین کارکنان نظر آئیں جنہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا تھا کہ وہ ’اشارے‘ کا انتظار کر رہی ہیں، اس فوٹیج میں الطاف حسین کی آواز اور پیغام بھی واضح تھا۔
استغاثہ نے کہا کہ یہ ثبوت یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں کہ جب ان کا ایک ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح الطاف حسین کی جانب سے ہجوم کو دی جانے والی ہدایات بعد میں شرپسندی کا سبب بنیں۔
اس دن کے بعد شائع ہونے والی خبروں کے مطابق مشتعل ہجوم نے ہنگامہ آرائی میں 2 ٹیلی ویژن اسٹیشنز میں توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 8 زخمی ہوئے۔
یہ مبینہ طور پر اس لیے ہوا کیونکہ الطاف حسین نے اپنی تقاریر کو کوریج نہ ملنے پر میڈیا پر تنقید کی۔
الطاف حسین کا دفاع کرنے والے کارکر بننگ کے وکلا نے کچھ فوٹیجز کو عدالت میں جمع کرائے جانے کو چیلنج کیا اور ان کے قابل قبول ہونے پر سوال اٹھایا۔
استغاثہ نے جواب دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدامنی ہوئی، اور یہ بدامنی ایک ایسی تقریر کی وجہ سے ہوئی جس سے سول آرڈر کو خطرہ لاحق ہوا۔
دونوں فریقین نے مسز جسٹس مے کے سامنے کافی دیر تک شواہد جمع کروانے پر تفصیلی بحث کی جس کے بعد دوپہر کو سماعت ملتوی کر دی گئی۔
آج جیوری شواہد حاصل کرے گی اور استغاثہ کے دلائل سنے گی۔