بچپن کی شادی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پاکستان مسلسل جکڑا ہوا ہے۔ کمسنی کی شادی کا رواج ز یادہ تر کمزور اورپسماندہ طبقات میں ہے۔ مُلک کے طول وعرض میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کمسن لڑکیاں اور لڑکے بیاہے جاتے ہیں مگر بچیاں اس ظُلم کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال موجودہ قوانین،مذہب کے غلط استعمال اورثقافتی رسم ورواج سے پیدا ہوتی ہے،اور معاشرے میں قائم صنفی عدم مساوات کی وجہ سے جاری ہے۔ بچوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق 2020میں بچپن کی شادی کے119 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 95 فیصد لڑکیوں کے اور5 فیصد لڑکوں کے تھے۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے مطابق 3.6 فیصد بچیوں کی شادی پندرہ سال سے کم عمر میں ہوئی جبکہ18.3 فیصد بچیوں کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہوئی۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق3 فیصد پاکستانی بچیوں کی شادی پندرہ سال سے پہلے ہو جاتی ہے جبکہ21 فیصد بچیاں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔ انٹرنیشنل ایجنسی کی ایک اور رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمسن دلہنوں کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔
پاکستان میں کمسنی کی شادی کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ زیادہ تر انتہائی کمزور قوانین،موجود قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے،بچوں کو چیز یا غلام سمجھنا، معاشرے کا قبائلی اور جاگیردانہ ڈھانچہ،عوام میں کم عمری کی شادی کے نقصانات کی عدم آگہی، شدید غربت، ناخواندگی، مذہبی عقائد، انسانی اسمگلنگ اور حکومتی سطح پر عزم کا فقدان ہے۔ ایک اور بڑی وجہ عمر کے اندراج کا غیر موثّر اور غیر ذمہ دار نظام ہے۔ بچوں خصوصاً بچیوں کی عمر کا درست اندراج ہمارے معاشرے میں ترجیح نہیں، جس وجہ سے شادی کے وقت بچیوں کی عمر میں ہیرپھیر کر لیا جا تا ہے۔ مزید برآں ایک اور خطرناک رحجان کم سن بچیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے ساتھ جڑی شادی ہے۔ سندھ میں عموماً ہندو بچیوں اور پنجاب میں مسیحی بچیوں کو اسلام قبول کروا کر ان کی شادی بڑی عمر کے مسلمان مرد سے کروا دی جاتی ہے۔
بچپن کی شادیوں کے تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ جنسی زیادتی کی ایک شکل ہے جس میں بچی پر حملہ ہوتا ہے اور اس کا بچپن چھن جاتا ہے۔ یہ بچی کی نفسیاتی بہبوداور فکری، ذاتی اور سماجی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں شادی کرنے والی لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے صنفی برابری کے انڈکس پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں 100لڑکوں کے مقابلے میں87لڑکیاں پرائمری سکول میں داخل ہیں، یہ تعداد سابقہ فاٹا کے لئے 56فیصد تک کم ہے۔
کم عمری میں شادی ہونے والی بچیوں کے ہاں شرح پیدائش زیادہ ہوتی ہے جو آبادی پر قابو پانے کی مہم میں ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ انھیں خواتین کی نسبت حمل سے متعلق صحت کے زیادہ خطرات کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے بچوں کو صحت کے مسائل ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان میں زچہ اورنوزائیدہ بچوں کی اموات کی بلند شرح کا کم عمری کی شادی سے گہرا تعلق ہے۔ کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کو خواتین کی نسبت گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزیدبرآں بچپن کی شادی معاشرے میں غربت کا باعث بنتی ہے جب یہ لڑکیوں کی کمانے کی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہے کیونکہ بچیاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی۔ لہٰذابچپن کی شادی کم عمر لڑکیوں کی زندگیوں اورروشن امکانات کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی،ان کے بچپن سے انکار،ان کی تعلیم میں رکاوٹ،ان کی صحت کو خطرے میں ڈالنا، اور ان کے مواقع کو محدود کرنا ہے۔
رضامندی شادی کا بنیادی اصول ہے جس میں دونوں افراد کو خودمختاری اور اپنی آزاد مرضی سے قبول یا انکار کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ کیابچی کی رضامندی باخبررضامندی ہوتی ہے؟کیا ایک بچی ذہنی طور پر اتنی پختہ ہوتی ہے کہ وہ دانشمندانہ فیصلہ لے اور ایک نیا خاندان بنا کر اپنی دیکھ بھال کر سکے۔ شادی زندگی بھر کا معاہدہ ہے اور جو بچی یہ نہیں سمجھتی کہ معاہدہ ہوتا کیا ہے اسے اس کے شوہر کے ساتھ معاہدے میں باندھ دیا جاتا ہے۔ایک بچی اپنا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) نہیں رکھ سکتی، اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کرسکتی، ووٹ نہیں دے سکتی، کسی دوسرے معاہدے پر دستخط نہیں کر سکتی، تو وہ شادی کے معاہدے میں فریق کیسے بن سکتی ہے؟
موجودہ وفاقی قانون چائلڈمیرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929کے گرد مبنی ہے جس میں شادی کی عمر کی حد چودہ سال یا اس سے زیادہ تھی۔ مسلم فیملی لاز1961کے تحت اسے بڑھا کر سولہ سال کر دیا گیا۔ فی الحال قانون لڑکیوں کے لئے شادی کی عمر سولہ سال جبکہ لڑکوں کے لئے اٹھارہ سال مقرر کرتا ہے جو کہ بذاتِ خود امتیازی ہے۔ 2010کی آئینی ترمیم کے بعد بچپن کی شادیوں کی روک تھام صوبائی موضوع بن گیا۔اب تک سندھ واحد صوبہ ہے جس نے اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر قانون پاس کیا ہے۔ سندھ میں چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ ایکٹ2013 کم عمری کی شادیوں کو قابلِ سزا اور ناقابلِ مصالحت جرم قرار دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس کسی بھی اطلاع پر مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے طور پر کارروائی کر سکتی ہے اور قانون کو نظرانداز کر کے خاندانوں،برادریوں یا جرگوں میں کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔ پنجاب میرج ریسٹرینٹ(ترمیمی) ایکٹ2015 اب بھی بچیوں کی سولہ سال کی عمر میں شادی کی اجازت دیتا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان وفاقی قانون کی طرح 1929کے ایکٹ پر ہی انحصار کئے ہوئے ہیں جسے تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
پاکستان نے1990 میں معاہدہ برائے حقوق اطفال کی توثیق کی جس کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کافرد بچہ ہے۔اقوامِ متحدہ کی کمیٹی برائے حقوقِ اطفال نے پاکستان کی 2016 میں پانچویں معیادی رپورٹ کے بارے میں اپنے اختتامی مشاہدات اور سفارشات میں نشاندہی کی کہ لڑکوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر(18سال)اورلڑکیوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر(16 سال)میں فرق ہے۔ لہٰذا کمیٹی نے پاکستان کو سفارش کی کہ بچے کی تعریف کے حوالے سے اپنے قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرے تا کہ بچے کو اٹھارہ سال سے کم عمرکے ہر انسان کے طور پر بیان کیا جا سکے۔ یہ خصوصاًچائلڈمیرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929میں ترمیم کرنے کی سفارش ہے تاکہ لڑکیوں کی شادی کی عمر اٹھارہ سال مقرر کرکے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی عمر کو ہم آہنگ کیا جا سکے۔
پاکستانی حکومت کو حقوق کے لحاظ سے متعدد چیلنجزہیں تاہم اسے لڑکیوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اقوامِ متحدہ کے پائیدارترقیاتی اہداف(SDGs) کے تحت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک نے 2030 تک اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے شادیوں کی روک تھام کا عہد کررکھاہے۔ اس لئے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال مقرر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بچیوں کو کم عمری کی شادی سے بچانے کے لئے پورے ملک میں چاہے وفاقی علاقے ہوں یا صوبائی قانون کے ذریعے پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے مقامی حکومتوں کے مضبوط ادارے ہونے چاہیے۔قانون سازی کے عمل کے دوران مذہب یا رسم ورواج کے نام پر پاکستان کو مسودہِّ قانون پارلیمنٹ سے باہر کسی بھی باڈی کو نہیں بھیجنا چاہیے۔ مضبوط نفاذ کے لئے شادی کی رجسٹریشن کے لئے شناختی کارڈ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
مزید برآں،کم عمری کی شادی کے مُضر اثرات کے بارے میں آگہی پھیلانے کے لئے مُلک گیر مہم چلانی چاہیے۔ قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال اور انسانی حقوق کے دیگر قومی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ اس بات کا نوٹس لیں اور پالیسی سفارشات مرتب کر سکیں۔ بچپن کی شادیوں سے نمٹنے کے لئے ہر بچے کے لئے پیدائش کا اندراج اور تعلیم کا حصول ضروری ہے۔ ایسے امدادی پروگراموں کا نفاذ ہونا چاہیے جو خطرے میں گھِری لڑکیوں کو با اختیار بنائیں۔ لڑکیوں کی تعلیمی انتخاب تک رسائی کوبہتر بنایا جانا چاہیے۔انھیں شادی کے بندھن میں بندھنے کی بجائے سکول بھیجا جائے۔ اس سے نسلوں کو صحتمند اورذمہ دارجبکہ ملک کو خوشحال بنانے میں مدد ملے گی۔