مقدمہ اسلام آباد پولیس کی مدعیت میں تھانہ مری میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ کارسرکار مداخلت، سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں پولیس ملازم کی وردی پھاڑنے کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شیخ رشید کو گرفتار کرنے گئے تو مزاحمت کی گئی۔ شیخ رشید سمیت تین مسلح افراد حملہ آور ہوئے۔ سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ شیخ رشید اور مسلح افراد کے پاس تین عدد گنز تھیں۔ شیخ رشید اور ملازمین نے پولیس اہلکار عثمان ظہور سے ہاتھا پائی کی۔ جسکی سرکاری یونیفارم پھٹ گئی۔
ایف آر میں مزید کہا گیا ہے کہ شیخ رشید نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
مقدمہ کارسرکار میں مداخلت سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔
واضح رہے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیاسی اتحادی شیخ رشید احمد کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات اسلام آباد پولیس نے پنجاب کی حدود میں سے گرفتار کیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے شیخ رشید کے خلاف ایک شہری راجہ عنایت الرحمان کی درخواست پر آبپارہ تھانے میں مقدمہ درج کیا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ایک ٹی وی انٹرویو میں ’شیخ رشید نے ایک سازش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری نے کچھ دہشت گردوں کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو عمران خان کو مروانا چاہتا ہے۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق شیخ رشید سابق صدر پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا ہے اور زرداری صاحب اور ان کے خاندان کے لیے مستقل خطرہ پیدا کرنا چاہتا ہے۔
بعد ازاں گرفتار سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد کو بروز جمعرات 2 فروری کو اسلام آباد کی ایف 8 کچہری جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
کمرہ عدالت میں موجود تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت میں مقدمہ کا ریکارڈ جمع کروا دیا۔ پولیس نے شیخ رشید کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی۔ تاہم عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر شیخ رشید نے پولیس پر الزام لگایا کہ انہیں ساری رات سونے نہیں دیا گیا۔ ’میں آج سے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرتا ہوں۔‘