واپسی کے ماہر نواز شریف پھر وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں؛ بی بی سی

پاک فوج نواز شریف کو ترجیح دیتی ہے، عمران خان کو یا کسی اور لیڈر کو، اس ضمن میں اس نے کبھی ایک لفظ بھی منہ سے نہیں کہا بلکہ وہ تو یہ اعلان کرتی ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وطن واپسی کے لیے نواز شریف نے فوج کے ساتھ ڈیل کی ہے۔

06:05 PM, 3 Feb, 2024

نیوز ڈیسک
Read more!

تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے ابھی پچھلے ہی سال وطن واپس آئے ہیں اور 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اگرچہ پچھلی تین دہائیوں کے دوران وہ پاکستان کی سیاست پر چھائے رہے ہیں، پھر بھی کم ہی لوگ اس مرتبہ ان کی واپسی کی پیش گوئی کر رہے تھے۔

پچھلی مرتبہ جب وہ وزیر اعظم تھے تو کرپشن کے الزام میں سزا ہونے کے بعد انہیں حکومت سے نکال دیا گیا جبکہ اس سے پہلے فوجی بغاوت میں انہیں اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا۔

اس کے باوجود ایک مرتبہ پھر وہ اقتدار میں کامیاب واپسی کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک ایسے رہنما کے لیے ڈرامائی تبدیلی ہے جسے طویل عرصے سے پاکستان کی طاقتور فوج کے مخالف کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

ولسن سینٹر تھنک ٹینک سے وابستہ تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں؛ 'نواز شریف وزیر اعظم کے لیے مضبوط امیدوار ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ بے حد مقبول ہیں کیونکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صحیح وقت پر ٹھیک چالیں چلی ہیں'۔

نواز شریف کی کہانی

اگر کوئی یہ کہے کہ نواز شریف واپسی کے ماہر ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ اس سے قبل بھی وہ ایسا کر چکے ہیں۔

دوسری وزارت عظمیٰ کے دوران 1999 میں انہیں معزول کیا گیا اور 2013 کے انتخابات میں ان کی واپسی ہوئی۔ ان انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے جو پاکستان میں ایک ریکارڈ ہے۔

یہ پاکستان کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا کیونکہ سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ایک منتخب جمہوری حکومت نے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو سونپا تھا۔

لیکن نواز شریف کے پچھلے دور اقتدار میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ ان کا آغاز اپوزیشن کی جانب سے 6 ماہ تک اسلام آباد میں دھرنا جاری رکھنے سے ہوا اور ان کا خاتمہ بدعنوانی کے الزامات کے بعد عدالتی کارروائی پر ہوا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے انہیں جولائی 2017 میں نااہل قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے فوراً بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

جولائی 2018 میں پاکستان کی ایک عدالت نے انہیں کرپشن کا مرتکب قرار دیا اور 10 سال کی سزا سنائی۔ لیکن دو ہی ماہ بعد عدالت نے حتمی فیصلہ آنے تک سزا معطل کر دی اور انہیں رہا کر دیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مگر دسمبر 2018 میں انہیں بدعنوانی کے الزام میں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ اس مرتبہ سعودی عرب میں ایک سٹیل ملز کی ملکیت پر انہیں 7 سال کی سزا سنائی گئی۔

اس فیصلے کے بعد انہوں نے ضمانت کی درخواست دائر کی کہ علاج کی غرض سے انہیں برطانیہ جانے دیا جائے۔ 2019 میں انہیں لندن جانے کی اجازت مل گئی جہاں اپنے لگژری فلیٹ میں 4 سال تک وہ مقیم رہے۔

غیر حاضری کے باوجود گذشتہ 35 سالوں میں نواز شریف پاکستان کے سرکردہ سیاست دانوں میں سے ایک رہے ہیں۔

فوجی بغاوت

1997 میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بننے کے بعد ایک مرتبہ پھر نواز شریف سیاسی منظر نامے پر حاوی دکھائی دیے۔ وہ فوج کے علاوہ تمام بڑے اداروں پر گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے پاکستان کی طاقتور فوج کو بھی لگام ڈالنے کی کوشش کی۔

اس کوشش کے بعد اکتوبر 1999 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے انہیں معزول کر دیا جس سے واضح ہو گیا کہ پاکستان میں کسی بھی سیاست دان کے لیے فوج کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا اور عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان پر کرپشن کے بھی الزامات لگائے گئے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی۔

لیکن سعودی عرب کی ثالثی میں ایک مبینہ ڈیل نے انہیں اور خاندان کے دیگر افراد کو جیل سے بچا لیا۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے 40 افراد کو 10 سال کے لیے سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔

کرپشن کے الزامات

یہ جلاوطنی 2007 میں ختم ہوئی جب پاک فوج کے ساتھ معاہدے کے بعد وہ وطن واپس آئے۔ مسلم لیگ ن نے 2008 کے انتخابات میں تقریباً ایک چوتھائی پارلیمانی نشستیں حاصل کی تھیں۔ نواز شریف اور ان کی جماعت نے تحمل کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھ کر وقت گزارا۔

اگرچہ 2013 کے انتخابات سے پہلے ہی ن لیگ کی جیت کے اشارے مل رہے تھے مگر انہیں جتنی کامیابی ملی اس نے سب کو حیران کر دیا۔ سیاسی طور پر انتہائی اہم صوبہ پنجاب میں انہیں عمران خان کی تحریک انصاف کی صورت میں بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔

انتخابات کے بعد عمران خان نے نواز شریف پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور پی ٹی آئی نے 6 ماہ تک اسلام آباد میں دھرنا دیا۔

کھلے عام الزامات سنائی دیے کہ یہ دھرنا آئی ایس آئی کے بعض اہلکاروں کی شہہ پر دیا گیا تھا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے سے روکنے کے لیے دباؤ میں لانا چاہتی تھی۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کا عمل پیپلز پارٹی حکومت کے دوران شروع ہوا تھا۔

تیسرے دور اقتدار میں نواز شریف نے ملک کو ایشین ٹائیگر میں تبدیل کرنے، نیا انفراسٹرکچر بنانے اور کرپشن کو برداشت نہ کرنے کا عزم کیا۔

لیکن مسائل کئی گنا بڑھ گئے اور معاشی لحاظ سے واحد خاص بات سی پیک پروجیکٹ تھا جو چین کی جانب سے 56 بلین ڈالر سے شروع کیا گیا تھا مگر وہ بھی کمزور معیشت کے باعث سست روی کا شکار ہو گیا۔

2016 میں پاناما لیکس نے وزیر اعظم کے لیے ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی جانب سے کرپشن کی تحقیقات کے دعوے سامنے آئے۔

نواز شریف نے تمام الزامات کی تردید کی اور انہیں سیاسی محرک قرار دیا۔ تاہم 6 جولائی 2018 کو عدالت نے انہیں کرپشن کی بنیاد پر غیر حاضری میں 10 سال قید کی سزا سنا دی۔ اس وقت وہ لندن میں اپنی بیمار اہلیہ کلثوم نواز کے ہمراہ تھے۔

ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو بھی سزا سنائی گئی۔

ایک بار پھر موقع مل گیا

اس سزا کے بعد نواز شریف نے لندن میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ پاکستان میں ان کے حریف عمران خان کی حکومت تھی۔

عمران خان کا دور اقتدار بھی ہنگاموں سے بھرپور رہا اور فوج کے ساتھ ان کے بھی تعلقات خراب ہو گئے۔

اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ہٹا دیا گیا اور شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن نے باقی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔

اکتوبر 2023 میں نواز شریف وطن واپس آئے اور واپسی کے بعد چند مہینوں میں ان کے خلاف دائر مقدمات ایک ایک کر کے ختم ہو گئے۔ واپسی پر ان کا استقبال اسی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کیا جس نے پہلے انہیں اقتدار سے ہٹایا تھا۔

چیتھم ہاؤس میں ایشیا پیسیفک پروگرام کی ایسوسی ایٹ فیلو ڈاکٹر فرزانہ شیخ کا کہنا ہے؛ 'انتخابات میں نواز شریف اگرچہ کامیابی حاصل کرنے جا رہے ہیں لیکن پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت بھاری اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں نہیں آتی، سوائے ایک مرتبہ کے جب نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تھی'۔

کیا وہ چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے؟

کوگلمین کا کہنا ہے؛ 'نواز شریف کے حامی امید کرتے ہیں کہ استحکام، تجربے اور انحصار پر مبنی ان کا بیانیہ ناصرف انہیں ووٹ دلوائے گا بلکہ پاک فوج بھی ان کے ساتھ یا کم از کم ان کی جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تیار ہو گی'۔

لیکن کئی تجزیہ کار اب بھی محتاط ہیں۔ بہت سے مسائل ہیں جن کا نواز شریف کو سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑا مسئلہ خراب معاشی صورت حال ہے جس کے لیے پی ڈی ایم حکومت کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

دوسرا مسئلہ عوام کا یہ احساس ہے کہ الیکشن منصفانہ نہیں ہو رہے کیونکہ عمران خان کو جیل سے باہر نہیں آنے دیا جا رہا۔

ایک اور مسئلہ پاکستان کی فوج ہے، جن کا ملکی معاملات میں اثر و رسوخ بہت گہرا ہے۔

جلاوطنی کے دوران نواز شریف کئی موقعوں پر فوج کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ خاص طور پر وہ سابق آئی ایس آئی سربراہ اور سابق آرمی چیف کو ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔

نواز شریف نے عدلیہ پر بھی کڑی تنقید کی، ججوں پر ملی بھگت کا الزام لگایا اور کہا کہ انہیں 'بوگس مقدمات' میں پھنسایا گیا تھا۔

پاک فوج نواز شریف کو ترجیح دیتی ہے، عمران خان کو یا کسی اور لیڈر کو، اس ضمن میں اس نے کبھی ایک لفظ بھی منہ سے نہیں کہا بلکہ وہ تو یہ اعلان کرتی ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وطن واپسی کو آسان بنانے کے لیے نواز شریف نے فوج کے ساتھ ڈیل کی ہے۔

کوگلمین کہتے ہیں؛ 'حقیقت یہ ہے کہ وطن واپسی کے بعد سے نواز شریف کو بہت زیادہ قانونی ریلیف ملا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ نواز شریف پاکستان کی طاقتور فوج کی گڈ بکس میں جگہ بنا چکے ہیں جو عدلیہ پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔

نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کو کوگلمین ایک طرح کی ستم ظریفی قرار دیتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جس کا ہر دفعہ فوج کے ساتھ جھگڑا ہو جاتا ہے ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آ رہا ہے۔

کوگلمین کے مطابق پاکستان میں فوج جب کسی سیاسی رہنما کے پیچھے کھڑی ہو تو انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

**

یہ تجزیہ BBC پر شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

مزیدخبریں