خوف و دہشت کی فضا پھیلانے والے عناصر بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں،وزیراعظم شہباز شریف

عسکریت پسندوں سے لڑتے ہوئے زخمی ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہ ہونے دیں گے،کوئٹہ پہنچنے کے بعد وزیراعظم نے قلات و بلوچستان کے دیگر اضلاع میں ’دہشت گردوں‘ سے بہادری سے لڑتے ہوئے زخمی ہونے والے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی عیادت کی

05:15 PM, 3 Feb, 2025

نیوز ڈیسک

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر پے در پے حملوں کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اپنی کابینہ کے اہم وزرا کے ہمراہ پیر کو کوئٹہ پہنچ  گئے جہاں ہوائی اڈے پر ان کا استقبال وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی اور گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے کیا ہے۔

کوئٹہ پہنچنے کے بعد وزیراعظم نے قلات و بلوچستان کے دیگر اضلاع میں ’دہشت گردوں‘ سے بہادری سے لڑتے ہوئے زخمی ہونے والے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی عیادت کی۔

انہوں نے زخمیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’آپ سب قوم کے ہیروز ہیں۔‘

وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’جب تک قوم کا تحفظ ایسے بہادر جوانوں کے سپرد ہے، دشمن  پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔

’بلوچستان میں دہشت و شر کی فضا پھیلانے والے عناصر بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں۔ صوبے کے عوام کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی فورسز شر پسند عناصر کے سد باب  کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہ ہونے دیں گے۔اس دورے کے دوران وزیر اعظم کو صوبے کی سکیورٹی کی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شہباز شریف کے ہمراہ ہیں۔ کوئٹہ میں وزیر اعظم صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے اور انہیں امن و امان کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔صوبائی حکومت کے مطابق وزیراعظم ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی شریک ہوں گے۔

گذشتہ ہفتے ہی بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں 18 فوجیوں کی جان گئی تھی جبکہ 23 عسکریت پسند مارے گئے۔

یہ ایک ہی دن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر سب سے مہلک حملہ تھا۔

اس حملے سے چند روز قبل ہی 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب  بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے تحصیل گلستان میں عسکریت پسندوں نے ایف سی کی ایک چوکی پر خودکش بمباروں کے ہمراہ حملہ کیا تھا جس میں دو فوجیوں کی جان گئی جبکہ جھڑپ کے دوران دو خوکش حملہ آوروں سمیت5 شدت پسند مارے گئے۔

پاکستانی فوج کے مطابق اس حملے کے بعد عسکریت پسندوں سے جو اسلحہ قبضے میں لیا گیا وہ امریکی ساختہ تھا۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔8جنوری کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں شدت پسندوں نے حملہ کر کے کچھ سرکاری اور نجی املاک کو نذر آتش کر دیا تھا۔

اسی طرح پانچ جنوری کو حکام کے مطابق بلوچستان کے شہر تربت کے قریب عسکریت پسندوں کے ایک بم دھماکے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد کی جان گئی اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ شدت پسند مسافر گاڑیوں اور ٹرکوں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔ان حملوں میں سے بیشتر کی ذمہ داری علیحدگی پسند کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں۔

حکومت کی طرف سے صوبے میں امن و امان کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کے علاوہ شدت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے علاوہ آرمی چیف عاصم منیر بھی یہ حالیہ بیانات میں یہ کہتے آئے ہیں کہ ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی تحت کارروائی کی جا رہی ہیں۔ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت یہ کہتی رہی ہے کہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے امن و امان کا قیام ناگزیر ہے۔

ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں نے 444 کیے جن جن میں کم از کم 685 اموات ہوئیں۔رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا۔

مزیدخبریں