کہا یہ جا رہا ہے کہ تحریک انصاف یہ والی تبدیلی اس لیے لا رہی ہے کہ اس کو خوف ہے کہ کہیں نیب ان پہ بھی ہاتھ نہ ڈال دے۔ ایسا اس لیے کہا جا رہا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے نیب چیئرمین نے یہ بیان دیا تھا کہ اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے اور کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ وہ قانون سے مبرا ہے۔ ساتھ ہی جسٹس جاوید اقبال نے یہ بھی کہا کہ اب تک تو نیب پچھلے کھاتوں میں مصروف تھی لیکن اب وہ پچھلے ایک سال میں جو کچھ ہوا اس پر غور و فکر کرے گی۔
میری نظر میں یہ وہ وجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ایسا سوچنے کی وجہ یہ ہے کہ چیئرمین نیب تو ویسے بھی متنازع ویڈیو لیک ہونے کے بعد سے پہلے کی طرح متحرک نہیں رہے۔ اور اگر وہ متحرک ہو بھی جائیں تو ان کو روکنے کے لئے تحریک انصاف کے پاس اور بڑے طریقے ہیں۔
اس قانون کو بدلنے کی اصل وجہ تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی اور اوپر سے نیب کے خوف سے افسروں کا مکمل طور پر کام روک دینا ہے۔ یہ دونوں عناصر نے مل کر بری طرح معیشت پر اثرانداز ہوئے اور آخر کار حکومت مجبور ہو گئی۔ ساتھ ہی ساتھ تاجر برادری کے تحفظات نے بھی نظام کو بدلنے پر مجبور کر ہی دیا۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس قانون سے حکومت کو فائدہ ہو گا یا حزب اختلاف کو، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک کو اور معیشت کو بلاشبہ فائدہ ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افسروں اور کاروباری لوگوں کو ہتھکڑی میں جکڑے نیب کے ملزموں میں اپنا آپ نظر آنے لگا تھا۔ جب افسر کام کرنا چھوڑ دیں تو ایک ہزار عمران خان مل کر بھی نظام کو نہیں چلا سکتے۔
پرانے قانون کے مطابق نیب کا چیئرمین جب چاہے جس کو چاہے گرفتار کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی اور کو بھی با اختیار بنا سکتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے جس کو چاہے گرفتار کر لے۔ اسی طرح نیب کے چیئرمین کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ جس کو مرضی چھوڑ دے۔ چاہے 10 لاکھ کی کرپشن کا الزام ہو یا 10 کروڑ، نیب کو کوئی کچھ کہنے والا نہ تھا اور کہتا بھی کیسے۔
اب نئی ترامیم کے مطابق نیب کی ان طاقتوں میں کمی کی گئی ہے۔ اب اگر نیب نے کسی سرکاری افسر کو گرفتار کرنا ہو تو یہ مدعا سکروٹنی کمیٹی scrutiny committee کے سامنے رکھا جائے گا جس میں چیئرمین نیب سمیت پانچ اور ممبر ہوں گے جن کا تعلق مختلف حکومتی شعبوں سے ہو گا۔ یعنی ایک شخص سے طاقت لے لی جائے گی۔ یہ ایک خوش آئند ترمیم ہے کیونکہ اس سے سرکاری افسروں میں دوبارہ سے بے خوف ہو کر کام کرنے کا حوصلہ آئے گا، خصوصاً دیانتدار افسروں میں۔
اس کے علاوہ اب سے نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے الزام کا کیس نہیں چلا سکے گی۔ یہ بھی ایک مناسب ترمیم ہے کیونکہ نیب کلرک اور ڈرائیور تک کو گرفتار کر لیتی تھی۔ نیب کو بار بار سپریم کورٹ نے اس ضمن میں تاکید کی کہ وہ صرف بڑے بڑے کیسوں پہ دھیان دے لیکن نیب نے کورٹ کی ہدایات کو کبھی اہمیت نہیں دی اور شاید اسی لئے آج مجبوراً ہی سہی لیکن قوانین میں ترمیم کرنی پڑی۔
ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ اب سے نیب کسی پرائیویٹ شخص کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گی۔ یہ بندش بھی ضروری تھی کیونکہ کئی ایسے کیس جن کے لئے موزوں مقام فوجداری عدالت ہے ان میں بھی نیب گھسی ہوئی تھی اور قانون کا بیڑہ غرق ہو رہا تھا۔ اگر یوں کہا جائے کہ نیب ایک بھتہ وصول کرنے والا ادارہ بن چکا تھا تو غلط نہ ہو گا۔ میں ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جو وصولیاں نیب نے کی ہیں ان میں سے بیشتر پیسے ملزموں نے نیب سے جان چھڑانے کے لئے دیے۔ اس بات کا تعین بہت کم کیسوں میں ہوا کہ کرپشن ہوئی بھی تھی یا نہیں۔
بے شک خان صاحب کے لئے یہ بڑا یو ٹرن ہے لیکن یہ پہلا بصیرت افروز یوٹرن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طریقے سے نیب کو بنایا گیا تھا اس میں ممکن ہی نہیں تھا کہ صحیح طریقے سے احتساب کیا جا سکے۔ نیب کی نظر میں ملزم، مجرم اور بے گناہ سب ایک جیسے تھے۔ اگر ساری باتوں کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو ان ترامیم سے نیب کے قانون میں توازن آ جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ نیت نیک ہو۔
اس کے باوجود کہ یہ ترامیم ملک کے وسیع تر مفاد میں ہیں، تحریک انصاف کو آرڈیننس لانے کے بجائے پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں پیش کردہ بِل کے ذریعے یہ ترامیم لانی چاہیے تھیں جو کہ پچھلے سال سینیٹ میں سینیٹر فاروق نائک نے پیش کیا تھا۔ جو بل سینٹ میں پیش کیا گیا تھا وہ اس آرڈیننس کی ہو بہو فوٹو کاپی ہے۔ یہ موقع گنوا کے تحریک انصاف نے اپنے ساتھ ظلم کیا ہے۔ وہ ترامیم جو آرڈیننس کے ذریعے لائی جا رہی ہیں اب ان کو شکوک وشبہات کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے کہ یہ سب تحریک انصاف اپنے لئے کر رہی ہے، یعنی خود کو احتساب سے بچانے کے واسطے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نیب کے قانون میں جتنی ترامیم لائی جا رہی ہیں ان سے معیشت پر اچھا فرق پڑے گا۔ افسر کام بھی کرنے لگیں گے۔ حکومت اور حزب اختلاف بھی خوش ہو جائیں گے۔ لیکن ہمیں یہ قانون بدلنے میں اتنی دیر کیوں لگی؟ ہم نے معیشت چلانے کے لئے تو قوانین بدل دیئے لیکن ان لوگوں کی فریاد نہیں سنی جو پچھلے بیس سال سے چیخ وپکار کرتے رہے کہ یہ سخت ظالمانہ قانون ہے۔ یہ ہیں ہمارے معیار اور یہ ہیں ہماری نیتیں!
ازراہ تفنن