تب بہت سے دوستوں نے کہا کہ میاں صاحب کبھی بھی نظریاتی نہیں ہو سکتے۔ ان کے نزدیک ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ بھی ایک ڈھکوسلے سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ مگر میرے جیسے بھولے بادشاہ لوگوں کو لگا کہ پہلے جو ہوا سو ہوا اس دفعہ نہ تو کوئی ڈیل ہو گی اور نہ ہی میاں صاحب جھکیں گے۔ مگر، اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کا وہ سب بیانیہ محض وقتی طور پر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اپنایا گیا تھا جسے اب کے حالات کے حساب سے چھوڑ کر اب نظریہ ضرورت کو اپنا لیا گیا ہے۔
اسی لیے آج مجھے ان کو ووٹ دینے پر ملال تو ضرور ہو رہا ہے۔ مگر شرمندگی بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ میرے مطابق میاں صاحب کو پانامہ لیکس میں پھنسا کر غلط طریقے سے اقتدار سے نکالا گیا۔ انتخابات میں بھی ان سے زیادتی کی گئی، میری حمایت اس سب کے لیے تھی۔
اب یہ تو مسلم لیگ (ن) پر منحصر ہے کہ انھوں نے اس سارے سفر میں اپنی حکومت گنوانے، اپنے اوپر غداری کی تہمتیں سہنے اور جیلوں میں سزائیں بھگتنے کے بعد بھی اگر یہی کرنا تھا۔ تو پھر پہلے ہی چودھری نثار اور میاں شہباز شریف کی بات مان کر مقتدرہ قوتوں کے ساتھ مفاہمانہ رویہ رکھتے، اپنی حکومت بھی بچاتے اور اس ساری ذلت سے بھی بچ جاتے۔ پھر سول بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کا علم اٹھا کر انقلابی بننے اور عوام کو بیوقوف بنانے کی بھی ضرورت نہِیں تھی۔
دوسری بڑی اپوزیشن پارٹی، پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو آصف زرداری صاحب کے ہوتے ہوئے ان سے اسی قسم کے فیصلے کی ہی امید تھی۔ کیونکہ، یہ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو والی پیپلز پارٹی نہیں ہے۔ جنھوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اس ملک میں جمہوریت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بلکہ اس میں کسی اصول کی کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہاں! بلاول کے ہوتے ہوئے آج کے اس فیصلے سے اس کی ماں اور نانا کی روحوں کو ضرور تکلیف ہوئی ہو گی۔ جس جمہوریت کی آبیاری انھوں نے اپنے خون سے کی، وہ آج کے اس فیصلے سے مزید کمزور ہو گئی ہے۔
جمہوری عمل کی یہ کمزوری اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے آرمی ایکٹ میں ترمیم پر حمایت کا فیصلہ شاید حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے تو سود مند ثابت ہو اور اس وقت وہ اسے اپنی کامیابی گردان رہے ہوں مگر ان کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اب شاہ سے وفاداری نبھانے میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ بلکہ، اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں بھی اب اس مقابلے میں شامل ہو گئی ہیں۔ اس کام میں وہ تحریکِ انصاف کے مقابلے میں زیادہ ماہر اور تجربہ کار بھی ہیں۔ اس لیے کہیں بازی پلٹ ہی نہ جائے۔
جہاں تک سویلین بالادستی کے حصول کی بات ہے تو فی الحال اس بیانیے کا عٙلم مجھ جیسے کچھ سیاسی طالب علموں اور کارکنوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ، اس وقت سیاسی جماعتوں کی پوری قیادت میں تو اس کو اٹھانے کی سکت موجود نہیں ہے۔ اور اس کا پورا ہونا ابھی تو کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں لگ رہا۔