پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ شہید زندہ ہیں، ہم مسلمان ہیں، ہمارا ایمان ہے یہ۔ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر گیا تھا ان کو ان کے نواسے کی شکایت کرنے۔ "میں ان کے پاس شکایت لے کر گیا تھا کہ وہاں 10 سے 12 اضلاع میں جو قتل ہوئے ہیں، ان میں پیپلز پارٹی کے اراکین ملوث ہیں۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی معلومات کے مطابق کل کتنے ایسے ایم این اے یا ایم پی اے قتل کی وارداتوں میں ملوث ہیں، سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ 12 ایم این اے اور ایم پی اے شامل ہیں، میں آپ کو اضلاع گنوا دیتا ہوں۔ شکارپور، حیدر آباد، سکھر میں واقعات ہوئے ہیں۔ سکھر میں تو مجھے دکھ ہوا کہ آپ کا ساتھی صحافی اجے لالوانی قتل ہوا اور جب آپ لوگ صحافت کی آزادی کے لئے احتجاج کر رہے تھے تو مجھے دکھ ہوا کہ وہ لوگ بھی آپ کے ساتھ آ کر بیٹھ رہے تھے جنہوں نے سکھر میں اجے لالوانی کو قتل کیا، ان کے لیڈر آپ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ عزیز میمن قتل ہوا جس نے ٹرین مارچ کو بے نقاب کیا۔ وہ نوشہرو فیروز سے تھا"۔
سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ میں نے سینیٹ کے ہر فورم پر یہ واقعہ اٹھایا۔ ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ کے مطابق ان سب اراکین کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہی تھا تو سینیٹر ابڑو کا جواب تھا کہ 14 سال سے پیپلز پارٹی کی وہاں حکومت ہے، کوئی اور تو وہاں کسی کو لاٹھی بھی مارنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ یہ صرف پیپلز پارٹی کے ایم پی ہی کر سکتے ہیں۔
وہ ناظم جوکھیو کے قتل کے حوالے سے ہوئے سینیٹ کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں بریفنگ دیتے ہوئے وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ اگر ناظم جوکھیو کا خاندان کسی وجہ سے کیس سے پیچھے ہٹتا ہے تو ریاست اس کیس کو خود آگے بڑھائے گی۔ انسانی حقوق کی وزیر نے مزید کہا کہ قندیل بلوچ کا کیس ہمارے سامنے ہے اور ریاست اس کیس کو بھی آگے بڑھائے گی اور کیس لڑے گی۔