امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ' بی ایل اے ایک مسلح علیحدگی پسند گروہ ہے جو پاکستان میں واقع بلوچ اکثریتی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور عام لوگوں کو نشانہ بناتا ہے۔'
محکمہ خارجہ کے بیان میں بی ایل اے کی ’دہشتگردانہ‘ کارروائیوں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ تنظیم اگست 2018 میں بلوچستان میں چینی انجینئیرز پر حملے، نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ اور مئی 2019 میں گوادر میں ہوٹل (پرل کانٹیننٹل) پر حملوں کی ذمہ دار ہے۔
کئی مبصرین کے خیال میں اس فیصلے کے ذریعے واشنگٹن ایک بار پھر اسلام آباد کو مغربی کیمپ کی طرف لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق امریکا کے زیرِ اثر عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان پر نوازشات کی بارش کر دی ہے۔ آئی ایم ایف چھ بلین ڈالرز دینے کی تیاری کر رہا ہے جب کہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک پاکستان کو قرضے دینے جارہے ہیں۔ برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک کی ترقیاتی ایجنسیاں بھی پاکستان کو کئی منصوبوں کے لیے امداد دینے کا عندیہ دے چکی ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق ایک برطانوی شہزادے اور شہزادی کی پاکستان میں جلد آمد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کو دورے کی دعوت دی ہے اور اس دورے سے پہلے بی ایل اے کو کالعدم قرار دے کر پاکستان کو خوش بھی کر دیا ہے۔ پاکستان کے کئی حلقوں کا تویہ دعویٰ ہے کہ پاکستان اس کیمپ کا حصہ بننے نہیں جارہا بلکہ حصہ بن چکا ہے۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں شک اور بد اعتمادی غالب رہی اور امریکا نے ہمیں دوستی کا صلا نہیں دیا۔ ''یوٹو کے وجہ سے ہم مشکل میں آئے۔ افغان جہاد کے دوران ہم نے امریکا کا ساتھ دیا لیکن جواب میں ہمیں پینسٹھ کی جنگ میں ہتھیاروں پر پابندی ملی اور بعد میں کیری لوگر اور پریسلر ترمیم۔ تو امریکا پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ چین ہمارا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان چین کو چھوڑنے نہیں جارہا، ''لیکن اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو بہت بڑی غلطی ہو گی کیونکہ چین ریل اور روڈ کے ذریعے ہمیں وسطی ایشیا اور روس سے ملا رہا ہے۔ جس سے خطے میں پاکستان کی اہمیت اور بڑھ جائے گا۔ ہم جس طرح چین پر بھروسہ کرتے ہیں ویسا بھروسہ امریکا پر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم چین کو چھوڑتے ہیں تو امریکا کچھ عرصے تک ہمیں ساتھ رکھے گا بعد میں ہم اس سے بھیک مانگ رہے ہوں گے۔‘‘
https://www.youtube.com/watch?v=LYvE_tnN8hw
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شورش کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم ستر کی دہائی کے اوائل میں باقاعدہ تنظیم سازی کی گئی اور بلوچستان لبریشن آرمی پہلی باقاعدہ علیحدگی پسند تنظیم بنی۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق بی ایل اے بلوچستان کی واحد علیحدگی پسند تنظیم ہے جس کی موجودگی پورے بلوچستان میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے یہ اقدام اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی درمیان جاری سرد مہری اب ختم ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان نے امریکہ کی درخواست پر افغانستان میں طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ امریکہ ہی کی درخواست پر پاکستان اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ طالبان اور افغان حکومت میں براہ راست بات چیت کا آغاز کروایا جائے۔
دوسری جانب پاکستان میں بھی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی جاری ہے
محکمہ انسدادِ دہشت گردی پنجاب نے دہشت گردی میں ملوث کالعدم تنظیموں کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں لاہور، گوجرانوالہ اور ملتان میں 5 کالعدم تنظیموں کیخلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ان تنظیموں میں دعوہ الارشاد ٹرسٹ ، معاذ بن جبل ٹرسٹ ، الانفال ٹرسٹ، المدینہ فاونڈیشن ٹرسٹ اور الحمد ٹرسٹ شامل ہیں اور مقدمات میں حافظ محمد سعید ، عبدالرحمان مکی ، امیر حمزہ ، محمد یحییٰ عزیز کو نامزد کیا گیا ہے۔
'پاکستانی وزارتِ داخلہ کے مطابق پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی 70 جماعتوں میں سے 15 علیحدگی پسند جماعتیں ہیں۔حکام کے مطابق یہ تنظیمیں ریاستِ پاکستان سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد میں ملوث رہی ہیں یا ہیں۔‘