بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق پولیس نے بتایا کہ ملزم حال ہی میں پولیس میں بھرتی ہوا تھا اور کانسٹیبل بننے کے لیے زیرِ تربیت تھا۔ صادق آباد صدر تھانے کے ایس ایچ او رانا محمد اشرف نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اہلکار نے محمد وقاص نامی شخص کو قتل کرنے کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
پولیس کے مطابق: ’اس نے پولیس کے بتایا کہ وہ سنہ 2016 سے محمد وقاص کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا تاہم اس وقت وہ جیل چلے گئے تھے۔‘
سنہ 2016 میں محمد وقاص کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر گستاخانہ خاکے شیئر کرنے پر توہینِ رسالت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق سنہ 2017 میں صادق آباد کی ایک عدالت نے انھیں سزا سناتے ہوئے جیل بھیج دیا تھا۔
تاہم انھوں نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا۔ حال ہی میں ہائی کورٹ نے انھیں توہینِ رسالت کے الزام سے بری کر دیا تھا اور وہ جیل سے رہا ہو گئے تھے۔ پولیس کے مطابق جیل سے رہا ہونے کے بعد محمد وقاص اپنے گھر لوٹنے سے پہلے کچھ عرصہ کہیں اور قیام کیا تھا۔
ایس ایچ او تھانہ صدر صادق آباد رانا محمد اشرف کے مطابق محمد وقاص اور ان کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار عبدالقادر دونوں کا تعلق صادق آباد کے ایک ہی علاقے اور برادری سے تعلق ہے۔
بی بی سی کے مطابق ملزم عبدالقادر نے جس وقت محمد وقاص پر حملہ کیا اس وقت ان کے چھوٹا بھائی بھی ان کے ہمراہ تھے جو حملے میں زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد مزید تفتیش جاری ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 2011 میں پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی سکیورٹی پر تعیناتی کے دوران توہین رسالت کا الزام لگا کر اسلام آباد کے علاقے ایف سکس میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سنہ 2011 میں دو مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی۔
سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2015 میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تھیں تاہم سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ اسی فیصلے کو دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا اور پھر صدر مملکت نے بھی ممتاز قادری کی رحم کی اپیل بھی مسترد کرد ی تھی۔ فروری 2016 میں ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تھی۔