ایک اور مقامی ذرائع نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان سے منسلک عسکریت پسند حال میں کراما کے مختلف علاقوں میں نظر آئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ اتوار کی رات تحریک طالبان کا ایک گروپ کراما سے گزرا جس کے بعد ہی یہ نعرے اسکول کی دیوار پر نظر آئے ہیں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یقینی ہے کہ یہ نعرے طالبان کی جانب سے دیواروں پر لکھے گئے ہیں۔ علاقے میں خوف کی فضا طاری ہے مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے نیا دور کو شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ وہ تحریک طالبان کے خلاف تب تک کوئی کارروائی نہیں کر سکتے جب تک ان کو اوپر سے ہدایت نہ مل جائے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لدہ کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے پیچھے طالبان ہیں یا نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے بھی ابھی اس بات کی تصدیق کی کہ یہ وال چاکنگ تحریک طالبان کی جانب سے کی گئی ہے اور اس کا حمزہ گروپ اس کے پیچھے ہے۔ ذرائع کے مطابق حمزہ گروپ کے کمانڈر بسم اللہ اس علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔ جبکہ ان کے ساتھ پینتیس عسکریت پسند اور شامل ہیں اور ان کا مقصد علاقے میں امن و امان کی بحالی اور اسلامی قانون کا نفاذ ہے۔ یاد رہے کہ تحریک طالبان پاکستان اس علاقے میں گزشتہ مہینوں سے سرگرم ہے جبکہ اس کی جانب سے بھتہ خوری اغوا برائے تاوان اور اس جیسی دیگر سنگین وارداتوں کی رپورٹس بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
طالبان نے تیاز گا سب ڈویژن جنوبی وزیرستان کے سکیورٹی چیک پوائنٹ پر بھی حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ذرائع نے بھی اس حملے کی تصدیق کی جس میں تین ایف سی اہلکار شہید ہوئے تھے جبکہ دیگر کو زخم آئے۔ لدہ کے باسی اور سینئر صحافی گوہر محسود نے نیا دور کو بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ممبران ایک بار پھر سے محسود قبیلے کے علاقوں میں پہنچ گئے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات تشویش کا باعث ہیں خاص کر جبکہ پاک فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب ختم کیا جا چکا ہے اور اس علاقے کو محفوظ قرار دیا جا چکا ہے اس کے ساتھ ہی دربدر افراد کو اپنے مسمار شدہ گھروں کی جانب واپس آنے کا کہا جا چکا ہے کہ اوپر لکھے گئے نعرے دراصل تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے علاقے میں اپنی موجودگی کو محسوس کرائے جانے کا ایک طریقہ ہے۔ علاقے کے مکین ان تازہ ترین پیش رفت میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
طالبان کا قبائلی علاقوں میں سر اٹھانا کوئی اچانک عمل نہیں
نیا دور پر شائع ہونے والی رپورٹس گزشتہ ایک سال سے اس بارے میں بتاتی رہی ہیں کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں طالبان سر اٹھا رہے ہیں اور کئی مجرمانہ کارروائیوں میں وہ شریک ہیں۔ حال ہی میں شائع ہونے والی نیا دور کے نمائندہ عبداللہ مہمند کی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے طالبان اب عام لوگوں اور خاص کر خواتین کو ڈرا دھمکا کر انہیں نوکریوں سے باز رکھ رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شمالی وزیرستان کے ترجمان عبدالرحمان کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وزیرستان میں خواتین سرکاری و غیر سرکاری نوکریوں سے دور رہیں ورنہ انجام اُن خواتین کی طرح ہوگا جن کو کچھ ماہ پہلے قتل کیا گیا تھا۔
جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ بحیثیت امیر تحریک طالبان ، شمالی وزیرستان کے عوام کو بالعموم اور دوسرے ضلعوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت کرنے والے خواتین کو انتہائی سختی سے متنبہ کرتے ہیں کہ وہ وزیرستان کی سرزمین پر انگریز اور اُن کے کارندوں کی نوکری سے باز آجائے ورنہ انجام سب کو معلوم ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی بار بار تنبیہ کے باؤجود بنوں یا دیگر اضلاع کی خواتین سرکاری کے نام پر یا این جی اوز کے ساتھ عوامی فلاح بہبود کے نام پر بے حیائی پھیلانے میں مصروف عمل ہے اور اُن پر ہماری کڑی نظر ہے اور جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ تحریک طالبان نے واضح کیا ہے کہ یہ خواتین اُن چار خواتین کے انجام کو بھول گئیں جن کو این جی اوز کے ساتھ کام کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا۔
واضح رہے کہ اس سال فروری کے مہینے میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں چار خواتین کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا اور چاروں خواتین ایک غیر سرکاری تنظیم کے ’وومن امپاورمینٹ‘ منصوبے کے لیے کام کر رہی تھیں ۔
مقامی صحافیوں اور سیکیورٹی ماہرین کے مطابق شمالی وزیرستان سمیت پورے قبائلی علاقے میں ایک مرتبہ پھر حالات کشیدہ ہیں اور افغانستان میں سیکیورٹی کی غیر یقینی صورتحال اور طالبان کی پیش رفت قبائلی علاقوں میں بھی اثرات لائے گی اور یہ علاقے دہشتگردوں کے ایک بار پھر نشانے پر ہوسکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق شمالی وزیرستان میں ایک بار پھر حالات کشیدہ ہے اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنان سمیت قبائلی عمائدین اور امن کمیٹیوں کے رضاکاروں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بنوں اور شمالی وزیرستان کے درمیان واقع جانی خیل کے علاقے میں گزشتہ ماہ نامعلوم افراد کی جانب سے نشانہ بنائے گئے قبائلی ملک کو نشانہ بنایا گیا جس کے لاش کو اج تک نہیں دفنایا گیا ہے اور چوبیس روز کے دھرنے کے بعد مظاہرین لاش سمیت اسلام آباد کا رُخ کررہے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس خبرداری کے باؤجود بھی اگر غیر مقامی خاتون سرکاری یا غیر سرکاری نوکری، پولیو کی نوکری یا آئندہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں ڈیوٹی لگانا چاہتی ہو تو پھر اپنے انجام کے لئے تیار ہوجائے ۔ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ نوکری کرنے والے خواتین نوکریوں کا شوق پورا کرلیں لیکن پھر اُن کے پاس سوائے افسوس کے کچھ نہیں ہوگا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کچھ ماہ قبل قتل کی گئی خواتین کو ہم نے اسلامی قوانین کے مطابق تین بار نوکریوں سے منع کیا تھا مگر وہ نہیں مانے اور پھر اُن کو انجام سب نے دیکھ لیا اور ہم نے مجبورہوکر اُن کو قتل کیا تاکہ باقی لوگ بھی سبق سیکھ سکیں۔
واضح رہے کہ وزیرستان اور قریبی علاقوں میں رہائش پزیر اور سیکیورٹی پر سخت گیر موقف رکھنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ شمالی وزیرستان سمیت قبائلی اضلاع میں ایک بار پھر عسکریت پسند اپنے ٹھکانے بنارہے ہیں جس سے علاقے میں امن و امان کی صورتحال غیر یقینی ہے ۔ دوسری جانب پشتون تحفظ مومنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد ریاست پر حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورکے عسکریت پسند علاقے میں مسلح گزشت کرتے ہیں اور امن و امان کی حالات کو خراب کررہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وزیرستان کو اسلحے سے پاک کیا گیا ہے لیکن اس کے باؤجود ٹارگٹ کلنگز اور خودکار بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستانی فوج اور وزیر ستان کی ضلعی انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتی آرہی ہے اور اپنے موقف میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت کسی بھی علاقے میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے مووجود نہیں اور حقانی نیٹ وررک سمیت تمام عسکریت پسندوں کے خلاف یکساء کاروائی ہوکر اُن کی کمر توڑ دی گئی۔
واضح رہے کہ وقفے وقفے سے سیکیورٹی فورسز پر بھی حملے ہورہے ہیں اور سرچ آپریشنز کے دوران اب تک فرنٹیر کور اور فوج کے جوانوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔
شمالی وزیرستان کے ضلع انتظامیہ کے ایک افسر نے نیا دور میڈیا کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ وزیرستان میں خطرہ نہیں ہے لیکن 2014 والے حالات اب نہیں اور ریاستی عملداری قائم ہوچکی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حملے سیکیورٹی فورسز پر بھی ہوتے ہیں اور کئی جوان ان حملوں کی پاداش میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں لیکن کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی ہے جو اس بات کو ثبوت ہے کہ دہشتگردی کو جڑ سے ختم کیا گیاہے۔ تحریک طالبان کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ خطرہ موجود ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ خواتین گھر بیٹھ جائیں اور نوکری ہی نہ کریں۔ ضلعی انتظامیہ کے افسر کے مطابق اکثر اوقات ایسے پمفلٹس اور دھمکیاں مقامی لوگ بھی بناتے ہیں اور پھر کسی طرح سوشل میڈیا یا بازار میں پھینک دیتے ہیں تاکہ خوف اور دہشت پھیلے ۔ ایک سوال کے جواب میں کہ مقامی لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں پر انھوں نے جواب دیا کہ لوگ خواتین کے کام کرنے اور خود مختاری سے خوف کھاتے ہیں لیکن اس کے باؤجود ہم اس چیز کی تحقیقات کرتے ہیں کہ اس کے پیچھےکون لوگ ہیں۔